*نمازِ جنازہ کا مسنون طریقہ*
سوال :
محترم مفتی صاحب! آپ سے ادباً درخواست ہے کہ نماز جنازہ مسنون طریقہ دلائل کے ساتھ بیان فرمائیں، بالخصوص سلام کے وقت ہاتھ کب چھوڑے جائیں؟ اسے بھی وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیں۔ اللہ تعالٰی آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
(المستفتی : محمد ذیشان، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز جنازہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے نیت کرلے، اس میت کی دعا کے لیے نماز جنازہ پڑھتا ہوں۔ (1)
امام میت کے سینہ کے برابر کھڑا ہوجائے، اور مقتدی حضرات امام کے پیچھے صف بندی کریں، اور بہتر یہ ہے کہ کم از کم تین صف بنائیں، اس لئے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس کے جنازہ میں تین صفیں ہوں، اس کی مغفرت ہوجاتی ہے، اور اسے جنت نصیب ہوتی ہے۔ (2)
اس کے بعد نماز جنازہ شروع کرنے کے لئے امام تکبیر تحریمہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر باندھ لے، اور اس کے بعد ثناء پڑھے، ثناء کے بعد ہاتھ اٹھائے بغیر دوسری تکبیر کہے، اور درود ابراہیم پڑھے، اور درود ابراہیم کے بعد ہاتھ اٹھائے بغیر تیسری تکبیر کہہ کر بالغ مرد وعورت کے لئے یہ دعا پڑھے :
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا، اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہ مِنَّا فَاَحْیِہ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہ مِنَّا فَتَوَفَّہ عَلَی الْاِیْمَانِ۔
نابالغ بچے کے لئے دُعا :
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا۔
نابالغ بچی کے لئے دُعا :
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْھَا لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْھَا لَنَا شَافِعَةً وَّمُشَفَّعَةً۔” (3)
پھر اس کے بعد چوتھی تکبیر کہے اور دونوں طرف سلام پھیر دے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ ہاتھ سلام کے بعد ہاتھ چھوڑا جائے یا پہلے؟
اختلاف کی اصل وجہ کسی صریح حدیث یا اثر کا نہ ہونا ہے۔
چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا ظفر عثمانی، رحمھما اللہ وغیرھم حضرات سلام سے پہلے ہاتھ چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اور مفتی عزیز الرحمن صاحب اور حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہما اللہ وغیرھم حضرات دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ چھوڑنے کو راجح قرار دیتے ہیں، کیونکہ "سلام "اللہ کا نام ہونے کی وجہ سے ذکرِ مسنون میں داخل ہے، اور ذکرِ مسنون میں ہاتھ باندھے رکھنا چاہیے۔ عام طور پر اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔ دونوں طریقہ درست ہے، لہٰذا جو جس پر عمل کررہا ہے، کرتا رہے۔ کسی ایک کو صحیح قرار دے کر دوسرے کو غلط کہنا درست نہیں ہے۔ (4)
1) وفی صلوٰۃ الجنازۃ ینوی الصلوٰۃ ﷲ تعالیٰ والدعاء للمیت۔ (الأشباہ : ۶۲)
2) عن مرثد بن عبداللہ الیزني قال: کان مالک بن ہبیرۃ إذا صلیٰ علی جنازۃ ، فتقال الناس علیہا جزّأہم ثلاثۃ أجزاء ، ثم قال: قال رسول اللہ ﷺ: من صلی علیہ ثلاثۃ صفوف فقد أوجب ۔(سنن الترمذي، الجنائز، باب کیف الصلاۃ علی المیت والشفاعۃ لہ، رقم : ۱۰۲۸)
3) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی علی النجاشي، فکبر أربعاً۔ (سنن الترمذي، الجنائز / باب في التکبیر علی الجنازۃ، رقم: ۱۰۲۷)
عن الشعبی قال: التکبیرۃ الأولیٰ علی المیت ثناء علی اللہ ، والثانیۃ صلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، والثالث دعاء للمیت، والرابعۃ تسلیم۔ (مصنف عبد الرزاق، باب القراء ۃ والصلاۃ فی الدعاء للمیت، رقم: ۶۴۳۴)
عن أبي ہریرۃ ؓ أن رسول اللہ ﷺ کان إذا صلی علی جنازۃ ، قال: اللّٰہم اغفر لحینا، ومیتنا، وشاہدنا، وغائبنا، وصغیرنا ، وکبیرنا، وذکرنا، وأنثانا، اللّٰہم من أحییتہ منّا فأحیہ علی الإسلام، ومن توفیتہ منا فتوفہ علی الإیمان ۔(سنن الترمذی الجنائز، باب مایقول فی الصلاۃ علی المیت، رقم: ۱۰۲۴)
عن یونس عن الحسن أنہ کان إذا صلی علی الطفل قال: اللّٰہم اجعلہ لنا فرطاً واجعلہ لنا أجراً ۔ (مصنف عبد الرزاق، الجنائز، باب الدعاء علی الطفل، رقم: ۶۵۸۸)
وفی الصبي والمجنون یقول: اللّٰہم اجعلہ لنا فرطاً ، واجعلہ لنا ذخراً، واجعلہ لنا شافعا ومشفعاً۔ (شرح النقایہ ، باب فی الجنائز ، مکتبہ اعزازیہ دیوبند ۱/۱۳۴)
4) وهذا مبني على أن الأصل أنه سنة قيام له قرار لا على أنه سنة قيام فيه ذكر مسنون۔ ( الدر المختار مع الرد : ١/٤٨٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الاول 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں