منگل، 16 اکتوبر، 2018

تصویر کشی کا سیلاب خدارا اسے روک لیجئے

*تصویر کشی کا سیلاب*

        *خدارا اسے روک لیجئے*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! گذشتہ چند سالوں سے یہ بات مسلسل مشاہدہ میں آرہی ہے کہ تصویر کشی کے متعلق عوام و خواص کے دلوں میں اس کی قباحت اور شناعت دن بدن کم ہوتی جارہی ہے، جو کہ انتہائی دُکھ اور افسوس کی بات ہے، جب کہ تصویر کشی کرنے والوں کے متعلق انتہائی سخت اور رونگٹے کھڑے کردینے والی وعیدیں متعدد احادیث میں وارد ہوئی ہیں، جن میں سے چند ایک یہاں ذکر کی جاتی ہیں، تاکہ فہم سلیم والے اس سے عبرت حاصل کریں.

احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اللہ تعالی فرماتا ہے : اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایسے لوگ ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جَو ہی بناکر دکھلائیں.
(صحیح بخاری، حدیث : 5953، 7559)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
قیامت کے دن سب سے سخت ترین عذاب تصویریں بنانے والے لوگوں کو ہوگا. (صحیح مسلم، حدیث : 2109)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
ہر مصور جہنم میں جائے گا۔ اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے میں ایک جان بنائی جائے گی جس کے ذریعہ سے اس (مصور) کو جہنم میں عذاب دیا جائےگا.
(صحیح بخاری، حدیث : 2225، 5963)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی، اسے قیامت کے دن اس تصویر میں روح پھونکنے کا حکم دیا جائے گا مگر وہ اس میں روح ہر گز نہ پھونک سکے گا. (صحیح بخاری، حدیث : 5963)

ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا :
کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، وہ یہ کہ تم کسی تصویر کو مٹائے بغیر اور کسی بلند قبر کو زمین کے برابر کیے بغیر نہ چھوڑنا.
(صحیح مسلم، حدیث : 969)

درج بالا احادیث مبارکہ میں بیان کی گئی تصویر سے مراد جانداروں کے پُتلے اور مجسمے، ہاتھ سے کسی کاغذ وغیرہ پر بنائی گئی اور کیمرہ سے شوٹ کرکے اس کی پرنٹ نکال لی گئی تصویریں ہیں، ایسی تصویروں کے متعلق برصغیر کے علماء کرام کا اتفاق ہے کہ یہ تصویر جائز نہیں ہے، اور مذکورہ احادیث میں بیان کی گئی وعید کا مصداق ہیں.

البتہ وہ تصویر جنہیں ڈیجیٹل کیمرا سے شوٹ کرنے کے بعد اس کا پرنٹ نہ نکالا گیا ہو بلکہ وہ موبائیل اور کمپیوٹر میں ہی ہو ان کے متعلق علماء کرام کے مابین اختلاف ہے.

زیر نظر مضمون میں تصویر کی دوسری قسم جو کہ علماء کرام کے درمیان مختلف فیہ ہے، اس سے قطع نظر ہم پہلی قسم کی تصویر کی طرف آپ حضرات کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، جس کے ناجائز اور گناہ ہونے پر علماء کرام کا اتفاق ہے.

بلا ضرورت شدیدہ کیمرے سے تصویر لے کر اس کا پرنٹ نکال لینا جائز نہیں ہے، البتہ ضرورت کی وجہ سے یہ تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہے، مثلاً پاسپورٹ، ایڈنٹی کارڈ، اسکولوں اور مدارس کے داخلہ فارم میں یا سرکاری کام کے فارم کے لئے تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہے۔
الضرورات تبیح المحظورات۔ (الأشباہ والنظائر قدیم۱۴۰)

اسی طرح قومی اور اجتماعی ضرورت کے لئے بھی تصویر کھینچوانے کی گنجائش ہے، مثال کے طور پر اگر مسلمان اور اسلام کے خلاف غیروں کی طرف سے سازش ہورہی ہو اور اس سازش کے خلاف مسلمان اجتماعی طور پراحتجاج کرتے ہیں اور احتجاج کی تشہیر کے بغیر مسلم دشمن طاقتوں پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا ہے، تو ایسے حالات میں اس احتجاج کی تشہیر، پاسپورٹ، ایڈنٹی کارڈ وغیرہ کی انفرادی ضرورت کے مقابلہ میں زیادہ ضرورت کی چیز ہے، اس لئے ایسے پروگراموں کے خطیبوں کی تصویر اور تقریری مجمع کی تصویر اجتماعی ضرورت کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے، لہٰذا مسلمانوں کے سماجی و سیاسی پروگراموں میں تصویر اور تشہیر کی ضرورت پاسپورٹ اورایڈنٹی کارڈ اور اسکولوں میں داخلہ فارم کے لئے تصویر کی ضرورت سے کم درجہ کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہاں پر اصل مقصد تصویر نہیں، بلکہ مسلمانوں کی باتوں کو باوزن بنانا ہے، اسی طرح اور بھی دیگر مقامات جہاں تصویر کشی اور اس کی تشہیر کی وجہ سے امت کا اجتماعی دینی، ملی و سماجی فائدہ ہو، وہاں بھی اس کی گنجائش ہوگی.
(مستفاد : ایضاح المسالک۱۳۴)

اب ہم تجزیہ کرتے ہیں ہمارے معاشرے کا جس میں تصویر کشی کو بالکل ارزاں (ہلکا) سمجھ لیا گیا ہے، گویا یہ کوئی گناہ ہی نہ ہو.

سب سے زیادہ سیاسی افراد اس گناہ میں ملوث ہیں، خواہ وہ دین دار ہوں یا غیردیندار، اور غالباً یہ لوگ اپنے آپ کو مرفوع القلم سمجھتے ہیں، اور انھوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ سیاست کرنا ہے تو اب یہ سب کرنا ہی پڑے گا، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے بہت سے بزرگوں نے بھی سیاست کی ہے اور کررہے ہیں، لیکن ان کی سیاست کی وجہ سے دین کے کسی حکم کی پامالی نہیں ہوتی، لہٰذا سیاست دانوں کو بھی چاہئے کہ جہاں تصویر کشی انتہائی لازم اور ضروری ہو اور قوم کا اجتماعی فائدہ ہو وہیں بقدر ضرورت اس کا اہتمام کریں، بلا ضرورت مثلاً *تہوار وغیرہ کے مواقع پر اپنی تصویروں کے بے تحاشہ بینر لگواکر مبارکباد دینا بالکل ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے،* مبارکبادی دینا ضروری نہیں ہے، اگر آپ واقعی قوم کے سچے خادم ہیں تو بغیر تصویری مبارکباد کے بھی قوم آپ کی حامی اور آپ کی دلدادہ ہوگی.
لہٰذا سیاست داں حضرات سے عاجزانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ بلا ضرورتِ شرعی تصویر کشی سے اجتناب کیجئے، اور *خدارا تصویر کشی کے اس سیلاب کو روک لیجئے.*

دوسرا طبقہ جو اس گناہ میں مبتلا ہے وہ عوام الناس کا ہے جو عید کے موقع پر اس کام کو غالباً ثواب سمجھ کر بہت اہتمام سے انجام دیتا ہے، چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ عید کے موقع پر شہر کے اکثر گلی کوچوں پر چند نوجوانوں کا تصویری بینر عید کی مبارکبادی کے ساتھ آویزاں ہوتا ہے.
بندہ کو خیال ہوتا ہے کہ ان بھولے بھالے نوجوانوں کو غالباً علم ہی نہیں ہے کہ یہ گناہ ہے، اس لئے ان لوگوں سے بطور خاص مخاطب ہوکر دوبارہ یہ بات یہ کہی جاتی ہے کہ *عید کی مبارکبادی کے تصویری بینر لگانا قطعاً ناجائز، فضول خرچی اور گناہ ہے،*

ہم آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ ان بینروں میں لگنے والے اخراجات کی رقم کسی غریب کو دیں، بلاشبہ یہ آپ کی حلال کمائی ہے، آپ اس کے مالک ہیں، آپ اسے جائز مصرف میں جہاں چاہیں خرچ کریں.
ہماری تو بس آپ سے یہ عاجزانہ اور مخلصانہ گذارش ہے کہ تصویر کشی کے گناہ سے اپنے آپ کو بچائیے، اور *خدارا تصویر کشی کے اس سیلاب کو روک لیجئے.*

تیسرا طبقہ، عصری تعلیم یافتہ طبقہ ہے،
جو دسویں..بارہویں...ڈاکٹریٹ وغیرہ کے نمایاں نتائج آنے پر اخبارات میں اپنی تصاویر شائع کرتا ہے یا کرواتا ہے، یا پھر ان کی تصاویر ان کی مرضی کے بغیر شائع کردی جاتی ہے، تیسری صورت تو قابل مؤاخذہ نہیں ہے، *البتہ پہلی دونوں صورتیں بالاتفاق ناجائز ہیں، اور گذرتے وقت کے ساتھ اس میں مزید بے حیائی یہ در آئی ہے کہ اب ان مراسلات و اشتہارات میں طالبات کی تصاویر کے ساتھ مبارکبادی پیش کی جاتی ہے، معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کا اپنے چہرے کو غیر محرموں سے چھپانا بھی واجب ہے، چنانچہ اس کی وجہ سے اس گناہ کی قباحت و شناعت مزید بڑھ جاتی ہے.*
لہٰذا ہماری مخلصانہ اور عاجزانہ التجا ہے کہ اس گناہ سے باز آجائیے، اور *خدارا تصویر کشی کے اس سیلاب کو روک لیجئے.*

اخیر میں ایک اہم اور ضروری مخلصانہ، عاجزانہ، اور مؤدبانہ درخواست ان سیاست داں علماء کرام سے ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں ان کی تصویر کشی کے تئیں بے احتیاطی تو اس کی وجہ نہیں ہے کہ عوام الناس کے دلوں میں تصویر کشی کی قباحت کم ہوگئی؟

آخر تصویر کشی کے متعلق کیوں ایک بڑا طبقہ اس قدر جری اور بے خوف ہوگیا ہے؟

اسی طرح دیگر علماء کرام (بشمول راقم الحروف) اس کی فکر کریں کہ اس کا سبب ہماری اس گناہ کی طرف سے بے توجہی تو نہیں؟ کیونکہ ہم نے اس گناہ کے بارے میں کما حقہ لوگوں کو تنبیہ نہیں کی، لہٰذا اب ہمیں اس گناہ کے متعلق لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس معصیت کو ختم کیا جاسکے.

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو تصویر کشی کے فتنے سے محفوظ فرمائے اور دوسروں کو اس فتنے سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین یا رب العالمین

*وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّہ رَبِّ الْعَالَمِينَ*

2 تبصرے:

  1. الحمدللّٰه ثم الحمدللّٰه!
    جزاک اللّٰه!
    محترم آپ نے نہایت اہم مسئلے پر رہنمائی فرمائی ہے ـ اللّٰه پاک ہم گنہگاروں کو اس نصیحت پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں ـ اور آپ کو اللّٰه پاک اپنی شان کے مطابق اجرِ عظیم عطا فرمائیں ـ
    آمین ثم آمین، یارب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے ، واقعی میں اس صدی کے بڑے فتنوں میں یہ بھی ایک بڑا فتنہ ہے ، آپ اس پر بہت خوب لکھا

    جواب دیںحذف کریں