*اللہ کے راستے میں ایک سبحان اللہ کے اجر کی حقیقت*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک سبحان اللہ کی فضیلت آج کل جماعتوں میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے راستے میں ایک سبحان اللہ کا ثواب 700000 ہے اور یہی سبحان اللہ رمضان میں اللہ کے راستے میں کہا جائے تو اس کا تین گنا یا دس گنا ثواب ہے۔ اسکی حدیث کے روشنی میں تحقیق مطلوب ہے۔
(المستفتی : نعیم الظفر، کوپرگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تبلیغی جماعت میں بعض احباب جو یہ فضیلت بیان کرتے ہیں یہ صرف انکی ہی خصوصیت نہیں ہے یہ بلکہ فضیلت فی سبیل اللہ کے لیے عام ہے جو بھی اللہ کے راستہ میں نکلے خواہ جہاد کے لئے، طلب علم کے لئے، تزکیہ نفس کے لئے یا حج وعمرہ کے لیے اور یا کسی اور نسبت سے وہ اس ثواب کا مستحق ہوگا. اسی طرح یہ فضیلت ایک روایت سے نہیں لی گئی بلکہ دو حدیثوں کو ملاکر تبلیغی جماعت کے احباب یہ بات کہتے ہیں۔
پہلی حدیث :
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْکٍ عَنْ الْخَلِيلِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَبِي الدَّرْدَائِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَعِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ کُلُّهُمْ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ أَرْسَلَ بِنَفَقَةٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَقَامَ فِي بَيْتِهِ فَلَهُ بِکُلِّ دِرْهَمٍ سَبْعُ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَمَنْ غَزَا بِنَفْسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَنْفَقَ فِي وَجْهِ ذَلِکَ فَلَهُ بِکُلِّ دِرْهَمٍ سَبْعُ مِائَةِ أَلْفِ دِرْهَمٍ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَائُ۔ (رواہ ابن ماجہ، باب فضل النفقۃ فی سبیل اللہ، ص ۱۹۸)
ترجمہ : ہارون بن عبداللہ ، ابی فدیک، خلیل بن عبداللہ ، حسن، حضرت علی بن ابی طالب ابوالدرداء ابوہریرہ ابوامامہ باہلی عبداللہ بن عمر عبداللہ بن عمرو جابر بن عبداللہ اور عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جس نے اللہ کے راستہ میں خرچہ بھیجا اور خود اپنے گھر ٹھہرا رہا اسے ہر درہم کے بدلے سات سو درہم (کا ثواب) ملے گا اور جو اللہ کے راستہ میں لڑا اور اس راہ میں خرچ کیا اس کو ہر درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کا ثواب ملے گا پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اللہ دوچند فرماتا ہے جس کے لئے چاہے۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ کے راستے میں ایک درہم کا خرچ کرنا سات لاکھ درہم خرچ کرنے کے برابر ہے۔
دوسری حدیث :
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَيُّوبَ وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الصَّلَاةَ وَالصِّيَامَ وَالذِّکْرَ تُضَاعَفُ عَلَی النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ۔ (رواہ أبو داؤد : ۱/۳۳۸)
ترجمہ : احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یحیی بن ایوب، سعید بن ابی ایوب، زبان بن فائد، حضرت معاذ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بے شک دورانِ جہاد نماز روزہ اور ذکر الٰہی کرنے پر اس کا اجر اس میں خرچ کرنے سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ۔
اِس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ کے راستے میں نماز، روزہ اور ذکر کا ثواب اللہ کے راستے میں خرچ کے مقابلے میں سات سو گنا زیادہ ہے، چنانچہ پہلی حدیث میں بیان کئے گئے سات لاکھ ثواب کو اِس حدیث شریف کے سات سو سے ضرب دیں تو 49 کروڑ بن جاتے ہیں۔
اسی طرح رمضان المبارک میں درج ذیل حدیث شریف کی وجہ سے اس کی فضیلت اور بڑھ جاتی ہے۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من تقرب فيه بخصلة من الخير كان كمن أدى فريضة فيما سواه ومن أدى فريضة فيه كان كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه۔ (رواہ البیھقی)
ترجمہ : جو اس ماہ مبارک میں نیکی (یعنی نفل) کے طریقے اور عمل کے بارگاہ حق میں تقرب کا طلبگار ہوتا ہے تو وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جس نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا ہو (یعنی رمضان میں نفل اعمال کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں فرض اعمال کے ثواب کے برابر ہوتا ہے) اور جس شخص نے ماہ رمضان میں (بدنی یا مالی) فرض ادا کیا تو وہ اس شخص کی مانند ہوگا جس نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں ستر فرض ادا کئے ہوں۔
معلوم ہواکہ رمضان المبارک میں کسی ایک نیکی کا ثواب دوسرے دنوں میں ستر نیکیوں کے ثواب کے برابر ہوتا ہے، چنانچہ رمضان المبارک میں اللہ کے راستے میں ایک سبحان اللہ کا اجر انچاس کروڑ سے ستر گنا بڑھ جائے گا۔
اگرچہ اس طرح حدیث کو ضرب دے کر بیان کرنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔ اس لئے کہ دونوں باتیں حدیث شریف سے ثابت ہیں، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ حقیقتِ ضرب کو واضح کردیا جائے، تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے، کیونکہ معاملہ بیانِ حدیث کا ہے کہ یہ انتہائی نازک موقع ہے، اسی طرح دیگر شعبے والوں مثلاً مدارس اور خانقاہ والوں کو بھی یہ فضیلت بیان کرنا چاہئے تاکہ عوام الناس اس فضیلت کو کسی خاص شعبہ کے لئے مخصوص نہ سمجھیں۔
مستفاد : فتاوی دارالعلوم زکریا 604/1) نجم الفتاوی 294/1)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 شعبان المعظم 1439
Mashalh umda tehqeq
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ ۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںزادک اللہ توفیقا و تسدیدا