جمعرات، 18 اکتوبر، 2018

تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے امامت سے برطرف کرنے کا حکم

*تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے امامت سے برطرف کرنے کا حکم*

سوال :

زید ایک مسجد میں چارسال سے  امام ہے اور عالم کورس کے ششم ردجے میں زیر تعلیم ہے زید اپنی مسجد کے تبلیغی جماعت کے کام(گشت ملاقات مسجدوار جماعت عصر بعد تعلیم فجر بعد کی تعلیم بھی)  پابندی سے کرتا ہے اسی طرح نماز کی پابندی کرتا ھے مسجد کے مصلیان زید سے خوش ہیں۔ مسجد کے ذمہ دار زید کو یہ الزام دے کر امامت سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں کہ زید تبلیغی جماعت کے مذکورہ بالا امور میں حصہ نہیں لیتا اور انھوں نے اسی بات کو کہہ کر امام کی تلاش شروع کردی ہے۔
سوال یہ ہیکہ ذمہ داروں کا صرف اس بنیاد پر کہ تبلیغی امور میں حصہ نہیں لیتا امام کو ہٹانا شرعاکیسا ہے؟
اور یہ بات کہ حصہ نہیں لیتا ایک الزام ہے کسی مسلمان کو الزام لگانا شرعا کیسا ہے؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ ابو عبد اللہ، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تبلیغی  جماعت  کی  محنت دین سیکھنے اورسکھانے  کی  ایک مفید اور مستحسن شکل ہے،  پس اس کی سرگرمیوں میں حصہ لینا زیادہ سے زیادہ مستحب عمل ہے، فرض یا واجب نہیں۔ اس لئے کہ دین کی تبلیغ  کا یہ طریقہ منزل من اللہ نہیں ہے، چنانچہ اگر امام صاحب اس کی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیتے ہوں تو شرعاً ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے اس کی امامت پر کوئی حرف آتا ہے، بشرطیکہ اس کام کی مخالفت بھی نہ کرتے ہوں۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں جبکہ امام صاحب اپنی اصل ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں، اور مصلیان بھی ان سے خوش ہیں تو صرف تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے ذمہ داران مسجد کا امام صاحب کو برطرف کرنا قطعاً ناجائز عمل ہے، اس لئے کہ مشکوۃ کی شرح مرقاۃ میں ملا علی قاری رحمہ اللہ نے علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ کسی مستحب عمل پر اصرار کرنا اور اس میں رخصت پر عمل نہ کرنا شیطانی دھوکہ اور اس کی طرف سے گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

لیکن سوال نامہ میں اس بات کا ذکر ہے کہ امام صاحب تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں میں پابندی سے حصہ لیتے ہیں اس کے باوجود مسجد کے ذمہ داران اس کا انکار کررہے جس کی وجہ سے یہ لوگ جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ کے ساتھ ساتھ ایذائے مسلم کے بھی مرتکب ہورہے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ تم اپنے آپ کو جھوٹ بولنے سے باز رکھو کیونکہ جھوٹ بولنا فسق وفجور کی طرف لے جاتا ہے یعنی جھوٹ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ برائیوں اور بداعمالیوں کے ارتکاب کی طرف رغبت ہوتی ہے اور فسق وفجور فاجر کو دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے اور یاد رکھو! جو شخص بہت  جھوٹ بولتا ہے اور زیادہ جھوٹ بولنے کی سعی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب یعنی بڑاجھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (بخاری،مسلم)

ایک جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا (کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذاء نہ پائیں۔

لہٰذا ذمہ داران پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس غیرشرعی فعل سے باز آجائیں، اور ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کریں، اگر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہ آئیں تو اہلیانِ محلہ کو ایسے تخریبی ذہن رکھنے والے متولیان کو برخاست کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے۔

من أصر علیٰ أمر مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال ۔ (مرقاۃ، باب الدعاء فی التشہد، الفصل الأول، ۲/۳۴۸)

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم إياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا۔ (بخاری ومسلم)

حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ وَإِسْمَاعِيلَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ۔ (بخاری)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ذی القعدہ 1439

1 تبصرہ: