منگل، 16 اکتوبر، 2018

حالات آنے کے اسباب اور ان کا حل

*حالات آنے کے اسباب اور ان کا حل*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

محترم قارئین ! گذشتہ کچھ دنوں سے ایک تحریر سوشل میڈیا پر کافی گردش کررہی ہے، اسی طرح دیڑھ دو سال میں جب بھی دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں پر حالات آتے ہیں یہ بلا عنوان اور لاوارث تحریر منظر عام پر آجاتی ہے، اور ظاہر پرست دین بے زار افراد اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگتے ہیں۔ اس تحریر کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ فاضل محرر نے اس میں اپنا نام نہیں لکھا ہے تاکہ بوقت ضرورت ان کی طرف رجوع کیا جاتا اور اس تحریر پر ہونے والے اعتراض کو ان کے سامنے رکھ کر ان سے مزید رہنمائی حاصل کی جاتی، یا ان کا چہرہ عوام کے سامنے لایا جاتا۔

بندہ نے جب پہلی مرتبہ اس تحریر کو پڑھا تو رجحان یہ بنا کہ اس کی تاویل کی جائے لیکن باوجود کوشش کے اس کی تاویل نہ کرسکا اس لئے کہ بعض باتیں اس میں بڑی خطرناک اور تشویشناک ہیں، لہٰذا اس کی تردید ضروری سمجھی گئی تاکہ عوام الناس اس تحریر سے گمراہ نہ ہوں۔

اس تحریر میں لکھا ہوا ہے کہ : ذرا مجھے کوئی بتائے تو سہی کہ تیرہ سال تک مکہ کے اولین مسلمانوں سے بھی زیادہ کوئی اسلام سے جڑا ہوا تھا؟
ان سے زیادہ کوئی عبادت گزار تھا؟
پھر بھی کفارِ مکہ کے ہاتھوں انکے ستائے جانے کا سلسلہ کسی طرح بھی ختم نہیں ہوا بلکہ روز بروز سنگین ہوتا گیا۔
اگر اسلام سے جڑنے اورعمل کرنے سے مسائل حل ہوتے تو انکے مسائل مکہ میں کیوں نہیں ختم ہوئے۔ انہیں اتھوپیا جاکر کیوں پناہ لینی پڑی؟
انہیں مدینہ کی طرف کیوں ہجرت کرنی پڑی؟
اگر سارے مسائل صرف عبادت کرنے سے حل ہوجاتے تو جب کفارِ مکہ سن سات ہجری میں مدینہ پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے، اور پورا مدینہ اس کی زد میں تھا تو خندق کھودنے کی کیا ضرورت تھی؟

ان جملوں میں فاضل محرر عبادات اور اسباب کے اختیار کرنے کو دو الگ الگ چیزیں ثابت کررہے ہیں۔

جب کہ قطعاً ایسا نہیں ہے۔

عبادات کے ساتھ اسباب کا اختیار کرنا بھی شریعت نے ہی بتایا ہے، لیکن ان دونوں کا موازنہ کرنا اور ایک دوسرے کے مقابل بتانا بالکل غلط اور گمراہی ہے۔

اس تحریر میں صرف اسباب کے اختیار کرنے کو کامیابی کی ضمانت بتایا گیا ہے، اور دینداری کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ دین سے بیزار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ.
ترجمہ: اور سست نہ ہو اور نہ غم کھاؤ اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ (سورہ آل عمران، آیت 139)

غلبہ اور سربلندی حاصل کرنے کی سب سے اہم شرط ایمان کو کہا گیا ہے نا کہ اسباب کے اختیار کرنے کو۔

فاضل محرر کے پیش نظر یہ حدیث شریف بھی ہونی چاہیے۔

حضرت ثوبان ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ تم پر دنیا کی اقوام چڑھ آئیں گی (تمہیں کھانے اور ختم کرنے کے لئے) جیسے کھانے والوں کو کھانے کے پیالے پر دعوت دی جاتی ہے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اس زمانہ میں بہت کم ہوں گے؟ فرمایا کہ نہیں بلکہ تم اس زمانہ میں بہت کثرت سے ہو گے لیکن تم سیلاب کے اوپر چھائے ہوئے کوڑے کباڑے کی طرح ہوگے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاری ہیبت و رعب نکال دے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے قلوب میں بزدلی ڈال دے گا کسی کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ ﷺ وہن (بزدلی) کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ دنیا کی محبت اور موت سے بیزاری۔ (ابوداؤد)

کیا آج ہمارے اندر دنیا کی محبت اور موت کا خوف نہیں ہے؟

کیا یہی وہ چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم پر حالات آئے ہوئے ہیں؟ کیا اسی وجہ سے ہم ہر جگہ مارے اور ستائے نہیں جارہے ہیں؟

یہ دنیا کی محبت اور موت سے بے خبری و بے زاری ہی تو ہے جس نے آج ہمیں ان نا مساعد حالات سے دو چار کیا ہے۔

شروع اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو جو تکالیف دی گئیں وہ ان کے رفع درجات کے لئے تھیں اس لیے کہ ظاہر ہے اسی وقت انھوں نے اسلام قبول کیا تھا تو ان پر کسی گناہ کے ہونے کا سوال ہی اٹھتا۔

اسی طرح ان کی تکالیف سے نجات کا ذریعہ ان کی حبشہ کی طرف ہجرت تھی یا اللہ تعالٰی نے ان سے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ ان پر فراخی لائی جائے گی؟

ارشاد باری تعالٰی ہے :
إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
ترجمہ: البتہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ (سورۃ الانشراح، آیت: 6)

یعنی اللہ کی رضا جوئی میں جو سختیاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے برداشت کیں اور رنج و تعب کھینچے۔ ان میں سے ہر ایک سختی کے ساتھ کئی کئی آسانیاں ہیں۔ مثلاً حوصلہ فراخ کردینا جس سے ان مشکلات کا اٹھانا سہل ہوگیا، اور ذکر کا بلند کرنا، جس کا تصور بڑی بڑی مصیبتوں کے تحمل کو آسان کردیتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روحانی راحت دی اور روحانی کلفت رفع کردی جیسا کہ " الم نشرح " الخ سے معلوم ہوا تو اس سے دنیاوی راحت و محنت میں بھی ہمارے فضل و کرم کا امیدوار رہنا چاہیے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ بیشک موجودہ مشکلات کے بعد آسانی ہونے والی ہے اور تاکید مزید کے لئے پھر کہتے ہیں کہ ضرور موجودہ سختی کے بعد آسانی ہو کر رہے گی۔ چناچہ احادیث و سیر سے معلوم ہوچکا کہ وہ سب مشکلات ایک ایک کر کے دور کردی گئیں۔ اور ہر ایک سختی اپنے بعد کئی کئی آسانیاں لے کر آئی۔ اب بھی عادۃ اللہ یہی ہے کہ جو شخص سختی پر صبر کرے اور سچے دل سے اللہ پر اعتماد رکھے اور ہر طرف سے ٹوٹ کر اسی سے لو لگائے۔ اسی کے فضل و رحمت کا امیدوار رہے، امتداد زمانہ سے گھبرا کر آس نہ توڑ بیٹھے ضرور اللہ اس کے حق میں آسانی کرے گا۔ (تفسیر عثمانی)

فاضل محرر آگے لکھتے ہیں :

ابوالکلام آزاد نے فرانسیسی فوجی لا بریتان کے حوالے سے جس نے مسلمانوں اور فرانسیسیوں کی کئی جنگوں کے حالات بڑے ہی تجزیاتی انداز میں لکھا ہےَ لکھتے ہیں کہ فرانسیسیوں نے جب پہلی بار مصر اور اسکے مضافات میں حملہ کیا تو مسلمانوں کے پاس منجنیق کی شکل میں مضبوط اور تہس نہس کرنے والی اس زمانے کی توپیں موجود تھیں جس سے مسلمانوں نے فرانسیسیوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ جب مسلمان توپیں برسا رہے تھے تو فرانسیسی دور خیموں میں اپنے پادریوں کے پاس جما ہوکر عیسی مسیح سے مدد طلب کر رہے تھے۔ اور مسلمانوں کی توپوں سے اتنے مرعوب تھے کہ اسے عذابِ الہی اور دین سے دوری کا سبب گردان رہے تھے۔​

لابریتان ایک دوسری جگہ لکھتا ہے کہ کچھ سالوں کے بعد جب فرانسیسوں نے مسلمانوں کی طرح توپیں بنا لیں اور وہ اس بار سمر قند اور بخارا پر حملہ آور ہوئے تو اس بار مسلمانوں کی وہی حالت تھی جو مصر پر حملے کے وقت فرانسیسیوں کی تھی۔ فرانسیسی توپیں برسا رہے تھے،
اس بار مسلمان گھروں میں دبک کے بیٹھے تھے ۔ سرکاری طور پر پورے سمرقند اور بخارا میں اعلان کردیا گیا کہ اس عذاب سے نجات کے لئے مسجدوں میں ختمِ خوجگان کیا جائےِ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو حلقے میں بیٹھ کر پڑھنے اورپڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔

فاضل محرر کو مسلمانوں کے اسباب سے پُر دو چار جنگیں تو یاد رہیں لیکن شاید وہ اسلام کی سب سے پہلی جنگ غزوہ بدر بھول گئے جو صرف اور صرف توکل اور اللہ تعالٰی کی مدد پر جیتی گئی، کیونکہ اس غزوہ مسلمانوں کے مقابلے میں مشرکین کی تعداد تقریباً چار گنا تھی، اور اسباب کے نام پر مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے ستر اونٹ، چھ زرہیں اور آٹھ تلوریں تھیں، اور کفار کا لشکر تقریباً ایک ہزار نہایت ہی جنگجو اور بہادروں پر مشتمل تھا اور ان بہادروں کے ساتھ ایک سو بہترین گھوڑے، سات سو اونٹ اور قسم قسم کے مہلک ہتھیار تھے۔

اس جنگ کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

اسی طرح اکثر غزوات اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات کے بعد میں ہونے والی اسلامی جنگوں کے احوال آپ اٹھا کر دیکھ لیں کہ مسلمانوں نے قطعاً کوئی بھی جنگ صرف اسباب کی بنیاد پر نہیں جیتی، بلکہ ہر جنگوں میں مسلمانوں کے پاس افراد و اسباب دشمن کے مقابلے میں کم ہی رہے ہیں، اور جہاں مسلمانوں نے أسباب و افراد بھروسہ کیا انہیں اسی کے حوالہ کردیا گیا۔

غزوہ حنین کا واقعہ قرآنِ کریم کی زبانی ملاحظہ فرمائیں :

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ۔
ترجمہ: مدد کرچکا ہے اللہ تمہاری بہت میدانوں میں اور حنین کے دن، جب خوش ہوئے تم اپنی کثرت پر پھر وہ کچھ کام نہ آئی تمہارے اور تنگ ہوگئی تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے پھر ہٹ گئے تم پیٹھ دے کر۔ (سورہ توبہ، آیت 25)

غزوہ حنین مسلمانوں کا پہلا جہاد تھا، جس میں چودہ ہزار سپاہی مقابلہ کے لئے نکلے تھے اور سامان جنگ بھی ہمیشہ سے زیادہ تھا اور یہ لوگ بدر و احد کے میدانوں میں یہ دیکھ چکے تھے کہ صرف تین سو تیرہ بے سامان لوگوں نے ایک ہزار کے لشکر جرار پر فتح پائی، تو آج اپنی کثرت اور تیاری پر نظر کرکے حاکم اور بزار کی روایت کے مطابق ان میں سے بعض کی زبان سے ایسے کلمات نکل گئے کہ آج تو یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی سے مغلوب ہوجائیں آج تو مقابلہ کی دیر ہے کہ دشمن فورًا بھاگے گا ۔
مالک الملک و الملکوت کو یہی چیز ناپسند تھی کہ اپنی طاقت پر کوئی بھروسہ کیا جائے، چناچہ مسلمانوں کو اس کا سبق اس طرح ملا کہ جب قبیلہ ہوازن نے قرارداد کے مطابق یکبارگی ہلہ بولا اور گھاٹیوں میں چھپے ہوئے دستوں نے چار طرف سے گھیرا ڈال دیا، گرد و غبار نے دن کو رات بنادیا تو صحابہ کرام کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگنے لگے، صرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری پر سوار پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھ رہے تھے، اور بہت تھوڑے سے صحابہ کرام جن کی تعداد تین سو اور بعض نے ایک سو یا اس سے بھی کم بتلائی ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جمے رہے۔ (معارف القرآن)

تاریخ گواہ ہے تاتاریوں نے جس وقت اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا اس وقت مسلمانوں کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی، علم تھا اسباب و افراد تھے، لیکن اگر کچھ نہیں تھا تو وہ دینداری تقوی و پرہیزگاری تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اور مسلمانوں کے اسباب کچھ کام نہ آئے ۔

فاضل محرر آگے ایک ملحدانہ جملہ لکھتے ہیں :

مسلمانوں پر آئے حالات کو دین سے دوری اورغفلت سے جوڑ کر دیکھنے والی طرزِ تفکیر سے باز آنا ہوگا۔ وہ ذہنی طور پر انتہائی مفلوج سوچ ہے۔

اس جگہ قرآنِ کریم کیا کہتا ہے ملاحظہ فرمائیں :

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ
ترجمہ: اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔ (سورۃ الشوری، آیت: 30)

حضرت حسن سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جس شخص کو کسی لکڑی سے کوئی خراش لگتی ہے، یا کوئی رگ دھڑکتی ہے یا قدم کو لغزش ہوتی ہے، یہ سب اس کے گناہوں کے سبب سے ہوتا ہے اور ہر گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ نہیں دیتے بلکہ جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جن پر کوئی سزا دی جاتی ہے ۔

بیضاوی نے فرمایا کہ یہ آیت ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جن سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) جو گناہوں سے معصوم ہیں یا نابالغ بچے اور مجنون جن سے کوئی گناہ نہیں ہوتا، ان کو جو تکلیف و مصیبت پہنچتی ہے وہ اس حکم میں داخل نہیں ۔ اس کے دوسرے اسباب اور حکمتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً رفع درجات اور درحقیقت ان کی حکمتوں کا احاطہ انسان نہیں کرسکتا۔ (معارف القرآن)

بعض روایاتِ حدیث سے ثابت ہے کہ جن گناہوں پر کوئی سزا دنیا میں دے دی جاتی ہے مومن کے لئے اس سے آخرت میں معافی ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ حاکم نے مستدرک میں اور بغوی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے۔ (مظہری)

پس معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر حالات ان کے گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں، اور آج بھی جو حالات ہیں وہ ہماری بد اعمالیوں کا ہی کا نتیجہ ہیں، اس لئے کہ آج مسلمانوں کی جو دینی کیفیت ہے وہ اظہر من الشمس ہے، آج وہ کون سے گناہ ہیں ہے جو مسلمان نہیں کررہے ہیں؟ فرائض و واجبات کو چھوڑ کر زندگی گذاری جارہی ہے، جس کا اندازہ کرنا بالکل آسان ہے، کوئی مجنون ہی ہوگا جو اس کا انکار کرے گا۔

فاضل محرر غالباً دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، اور یہاں کی کامیابی کو ہی حقیقی کامیابی سمجھتے ہیں چنانچہ وہ آگے لکھتے ہیں :

آج دوسری قومیں کامیاب ہیں تو اس لئے نہیں کہ وہ دین دھرم سے بہت جڑی ہوئی ہیں۔ بہت عبادت گزار ہیں۔ انکی کامیابی کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ منصوبہ سازی کے عمل سے خود کو جوڑے ہوئے ہیں۔

اس جملہ سے محرر کیا بتانا چاہ رہے ہیں؟ کیا وہ دیگر مذاہب کو بھی حق سمجھتے ہیں؟ کفار و مشرکین کی حکومت اور ان کی دنیاوی کامیابی انہیں متاثر کرتی ہے؟ اگر ایسا ہے اور یقیناً ایسا ہی ہے تو انہیں اس حدیث شریف کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْکَافِرِ
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا دنیا قید خانہ ہے مسلمان کیلئے اور جنت ہے کافر کے لئے ۔ (صحيح مسلم)

اخیر میں محرر نے قرآن کریم کی ایک آیت واعدو لھم الخ کا تذکرہ کیا ہے جس میں جہاد سے پہلے اس کی تیاری اور اس کے لئے درکار اسباب جمع کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

اسباب اختیار کرنے کے متعلق یہ ایک آیت تو فاضل محرر کو مل گئی، لیکن سینکڑوں مرتبہ نماز کے متعلق احکامات والی آیات انہیں نظر نہیں آئی؟ روزہ، زکوٰۃ، حج کے احکامات انہیں قرآن کریم میں نہیں ملے؟ چوری، زنا، جھوٹ، غیبت، بہتان، وغیرہ منکرات کے متعلق آیات انھیں بالکل بھی نظر نہ آئی؟

ہمیں بتائیں کیا اللہ تعالٰی کے احکامات کو پامال کرکے من مانی زندگی گذار کر کوئی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکتا ہے؟

خوب خیال رہے کہ ہم اسباب کا انکار نہیں کررہے ہیں، اور نہ ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ چیز ممکن ہی نہیں ہے، اس لئے کہ شریعتِ کاملہ و مکملہ نے اس کا حکم دیا ہے، لیکن اس وقت جس چیز کی زیادہ ضرورت ہے اس کے متعلق لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور شریعت کے ہی کسی حکم کی اہمیت بیان کرنے میں اس کا خیال رہے کہ کہیں شریعت کا کوئی دوسرا حکم اس کی وجہ سے بے حیثیت تو نہیں ہورہا جیسا کہ زیر بحث تحریر میں غالباً جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہے۔

محترم قارئین ! آج اسباب تو اختیار کئے جارہے ہیں لیکن دینداری تقوی و پرہیزگاری نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں حالات سے نمٹنے کے لئے صحیح رخ نہیں مل رہا ہے، اور اسباب کے اختیار کرنے کا بھی کوئی فائدہ ہمیں نہیں مل رہا ہے، اور حالات جوں کے توں ہم پر سایہ فگن ہیں ۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

رأسُ الحِكْمةِ مَخافةُ اللَّهِ عزَّ وجلَّ
ترجمہ : حکمت کی جڑ اور بنیاد اللہ تعالٰی کا خوف ہے ۔ (بیھقی)

حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق ملتا ہے کہ جب آپ چھوٹے تھے تو آپ کی بہنیں آپ کو کہا کرتی تھیں کہ عمر تو بڑا ہوکر کیا کرے گا؟ تجھے تو اونٹ چَرانا تک نہیں آتا۔
لیکن دنیا نے دیکھا اور تسلیم کیا کہ جب آپ نے اسلام قبول کیا اور اللہ اس کے رسول کی محبت آپ کے دل میں جاگزیں ہوئی تو اسی تقوی و پرہیزگاری نے آپ کو وہ حکمت و دانائی عطا فرمائی جس کی وجہ سے آپ نے ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل کی بحسن و خوبی حکمرانی فرمائی جس کی مثال آج مسلمانوں کے علاوہ دیگر قومیں بھی دیتی ہیں۔

لہٰذا سب سے پہلے ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو راضی و خوش کرنے کی کوشش کریں، احکاماتِ شریعت کی مکمل پیروی کریں، اور منکرات سے بچنے کی حد درجہ سعی کریں، اور اس کے بعد دیکھیں کہ حالات کس طرح تبدیل ہوتے ہیں۔

کسی شاعر نے کہا ہے :

چمن کے مالی اگر بنالیں موافق اپنا شعار اب بھی
چمن میں آسکتی ہے پلٹ کر چمن سے روٹھی بہار اب بھی

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے گذشتہ اعمال بد کو معاف فرمائے اور آئندہ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، حالات کے تبدیل ہونے کے فیصلے فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

*وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں