بدھ، 17 اکتوبر، 2018

کیا حضور اکرم ﷺ اپنی قبرِ اطہر میں حیات ہیں؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں حیات ہیں؟ اور اپنی قبروں میں نماز بھی پڑھتے ہیں؟ اس سلسلے میں احادیث ہوں تو براہ کرم وہ بھی ارسال فرمائیں۔
(المستفتی : محمد زاہد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اہلِ سنت و الجماعت کا یہ واضح عقیدہ ہے کہ  حضور  اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں اعلی ترین درجہ کی حیات اور جسد عنصری کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ اللہ تعالٰی نے مٹی پر یہ بات حرام کردی ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے اجساد طیبہ کو ختم کرے اور مٹی  میں ملائے، صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث کی صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہے، کسی مسلمان کے لئے اس کے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔

روایات ملاحظہ فرمائیں :

عن أوس بن أوس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن من أفضل أیامکم یوم الجمعۃ، فیہ خلق آدم وفیہ قبض وفیہ النفخۃ، وفیہ الصعقۃ، فأکثروا علی من الصلاۃ فیہ، فإن صلاتکم معروضۃ علي قال: قالوا: یارسول اللّٰہ! وکیف تعرض صلاتنا علیک وقد أرمت؟ قال: یقولون: بلیت، فقال: إن اللّٰہ عز وجل حرم علی الأرض أجساد الأنبیاء۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۱۵۰، رقم: ۱۰۴۷، ۱؍۲۱۴، رقم: ۱۵۳۱، المعجم الکبیر ۱؍۲۱۶، رقم: ۵۸۹، سنن ابن ماجۃ ۱؍۱۱۸، رقم: ۱۶۳۶، ۱۶۳۷، مسند أحمد ۴؍۸ برقم: ۱۶۲۶۲، سنن النسائي ۱؍۱۵۵، رقم: ۱۳۷۰، السنن الکبری للنسائي ۱؍۵۱۹، رقم: ۱۶۶۶)

ترجمہ : حضرت اوس بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا ! تمہارے بہتر دنوں میں سے ایک جمعہ کا دن ہے اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن ان کا انتقال ہوا اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن سب لوگ بیہوش ہوں گے اس لئے اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول ﷺ ! ہمارا درود آپ ﷺ پر کس طرح پیش کیا جائے گا جب کہ (وفات کے بعد) آپ ﷺ کا جسم (اولوں کی طرح) گل کر مٹی ہوجائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام قرار دیدیا ہے (یعنی زمین باقی تمام لوگوں کی طرح انبیاء کے اجسام کو نہیں کھاتی اور وہ محفوظ رہتے ہیں۔

اسی طرح دیگر صحیح روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔

إن الأنبياءَ أحياءٌ في قبورِهم ۔
الراوي: - المحدث: الشوكاني - المصدر: نيل الأوطار - الصفحة أو الرقم:3/305 
خلاصة حكم المحدث: ثابت

     
الأنبياءُ أحياءٌ في قبورِهِم يصلُّونَ۔
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: التوسل - الصفحة أو الرقم: 59 
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح 
التخريج : أخرجه البزار (6888)، وأبو يعلى (3425)، وابن عدي في ((الكامل في الضعفاء)) (2/327)

الأنبياءُ أحياءٌ في قبورِهم يصلون۔
الراوي: [أنس بن مالك] المحدث: الألباني - المصدر: أحكام الجنائز -الصفحة أو الرقم: 272 
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد 
التخريج : أخرجه البزار (6888)، وأبو يعلى (3425)، وابن عدي في ((الكامل في الضعفاء)) (2/327)

     
الأنْبياءُ أَحْياءٌ في قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ۔
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة -الصفحة أو الرقم: 621 
خلاصة حكم المحدث: إسناده قوي 
التخريج : أخرجه البزار (6888)، وأبو يعلى (3425)، وابن عدي في ((الكامل في الضعفاء)) (2/327)

     
الأنْبياءُ أحياءٌ في قُبورِهِمْ يُصَلُّونَ۔
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع -الصفحة أو الرقم: 2790 
خلاصة حكم المحدث: صحيح 
التخريج : أخرجه البزار (6888)، وأبو يعلى (3425)، وابن عدي في ((الكامل في الضعفاء)) (2/327)

بعض روایات میں ملتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا " جو آدمی میری قبر کے پاس " کھڑا ہو کر مجھ پر درود پڑھتا ہے میں اس کو سنتا ہوں اور جو آدمی دور سے مجھے پر بھیجتا ہے وہ میرے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔

من صلَّى عليَّ عند قبري سمِعتُه ، ومن صلَّى عليَّ من بعيدٍ أعلمتُه .
الراوي : أبو هريرة المحدث: السخاوي - المصدر: القول البديع - الصفحة أو الرقم: 227 
خلاصة حكم المحدث: سنده جيد 
التخريج : أخرجه العقيلي في ((الضعفاء الكبير)) (4/136)، والبيهقي في ((شعب الإيمان)) (1583) باختلاف يسير، والخطيب في ((تاريخ بغداد)) (3/292) مطولاً بنحوه.

مَن صلَّى عليَّ عندَ قَبري سمِعتُهُ ومَن صلَّى عليَّ مِن بعيدٍ أُعلِمتُهُ .
الراوي: أبو هريرة المحدث: السخاوي - المصدر: الأجوبة المرضية -الصفحة أو الرقم: 3/929 
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد 
التخريج : أخرجه العقيلي في ((الضعفاء الكبير)) (4/136)، والبيهقي في ((شعب الإيمان)) (1583) باختلاف يسير، والخطيب في ((تاريخ بغداد)) (3/292) مطولاً بنحوه.

امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ میں شب معراج میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گذرا وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، نیز مسلم ہی کی روایت سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ میں نے حضرات انبیاء علیہم السلام کی ایک جماعت کے ساتھ اپنے آپ کو دیکھا تو میں نے حضرت عیسیٰ اور حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہما الصلاة والسلام کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا۔

و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ ح و حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ کِلَاهُمَا عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَنَسٍ ح و حَدَّثَنَاه أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَرْتُ عَلَی مُوسَی وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ وَزَادَ فِي حَدِيثِ عِيسَی مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي. (مسلم)

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَائَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا فَکُرِبْتُ کُرْبَةً مَا کُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ قَالَ فَرَفَعَهُ اللَّهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ مَا يَسْأَلُونِي عَنْ شَيْئٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنْ الْأَنْبِيَائِ فَإِذَامُوسَی قَائِمٌ يُصَلِّي فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوئَةَ وَإِذَا عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام قَائِمٌ يُصَلِّي أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام قَائِمٌ يُصَلِّي أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُکُمْ يَعْنِي نَفْسَهُ فَحَانَتْ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ الصَّلَاةِ قَالَ قَائِلٌ يَا مُحَمَّدُ هَذَا مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ. (مسلم)

ذکر کردہ تمام روایات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں، اور یہ زندگی روح مع الجسم ہے اور جسم عنصری دنیاوی مراد ہے اور قبر سے مراد روضہ اطہر ہے، اور اس پر اجماع نقل کیا گیا ہے۔

نحن نؤمن ونصدق بانہ حتی یرزق وان جسدہ الشریف لاتأکلہ الأرض والاجماع علی ھذا۔ (القول البدیع : ١٢٥)

لا شک في حیاتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد وفاتہ، وکذا سائر الأنبیاء علیہم السلام أحیاء في قبورہم، حیاۃ أکمل من حیاۃ الشہداء التي أخبر ہ اللّٰہ بہا في کتابہ العزیز۔ (وفاء الوفاء : ۲؍۴۰۷)

وأما أدلۃ حیاۃ الأنبیاء فمقتضاہا حیاۃ الأبدان حالۃ الدنیا مع الاستغناء عن الغذاء۔ (وفاء الوفاء : ۲؍۴۰۷)فقط
واللہ تعالیٰ اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 شوال المکرم 1439

1 تبصرہ: