*کھڑے ہوکر کھانے پینے اور پیشاب کرنے کا حکم*
سوال :
کھڑے ہوکر کھانا کھانا، کھڑے ہو کر پانی پینا اور کھڑے ہوکر پیشاب کرنا کیا یہ تین اعمال برے ہیں؟ یا صرف سمجھے جاتے ہیں؟ اور ان پر کیا وعیدیں ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : قدسی فیصل سعود، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تینوں اعمال کے احکام بالترتيب ملاحظہ فرمائیں :
▪کھڑے ہوکر کھانا انسانوں کا شیوہ نہیں ہے، بلکہ دیگر جانوروں کا طریقہ ہے، اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو جانوروں سے الگ اور امتیازی شان عطا فرمائی ہے، انسانوں کے کھانے اور پینے کی امتیازی شان یہ ہے کہ وہ بیٹھ کر کھائیں اس لئے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بغیر عذر کے کھڑے ہوکر کھانے پینے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا تو آپ سے پوچھا گیا کہ کھانے کا کیا حکم؟ تو آپ نے فرمایا وہ تو اس سے بھی زیادہ سخت ہے ۔
اسی طرح اگر غیرقوموں کی مشابہت میں کھڑے ہو کر کھانا کھایا جائے (جیسا کہ آج کل بڑے شہروں میں شادیوں اور دیگر تقریبات میں کھڑے ہوکر کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، اور لوگ برضا ورغبت کھاتے ہیں) تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے، حدیث شریف میں اس کی صراحت آئی ہے کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے، اس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا اور کھڑے ہو کر کھانے کا فیشن چونکہ مغربی یہود و نصاریٰ سے آیا ہے، اس لئے اس کا ترک ہر مسلمان پر ضروری ہے ۔
البتہ پان اور اس جیسی دیگر چیزیں مثلاً خشک میوہ جات وغیرہ کے متعلق یہ حکم نہیں ہے، کیونکہ اس میں اغیار کی مشابہت نہیں ہے اور نہ ہی عرف میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے، حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ پیغمبر علیہ السلام کے زمانہ میں چلتے ہوئے کھاتے پیتے تھے، تو اس کھانے پینے سے مراد ایسی ہی معمولی چیزوں کا کھانا پینا ہے جن کیلئے دستر خوان بچھانے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، لہٰذا ایسی چیزوں کے کھڑے کھڑے یا چلتے پھرتے کھانے کی گنجائش ہے ۔
عن أنسؓ أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، نہی أن یشرب الرجل قائماً، فقیل الأکل قال ذاک أشد۔ (ترمذي شریف، باب ماجاء في النہی عن الشرب قائماً، النسخۃ الہندیۃ۲/۱۰، دار السلام رقم: ۱۸۷۹، مسند أبي داؤد الطیالسي، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/۴۸۲، رقم: ۲۱۲۹، مسند أحمد بن حنبل ۳/۱۳۱، رقم:۱۲۳۶۳)
عن ابن عمرؓ، قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد، باب في لبس الشہرۃ، النسخۃ الہندیۃ۲/۵۵۹، دارالسلام رقم: ۴۰۳۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کنا نأکل علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نمشي ونشرب ونحن قیام۔ (سنن الترمذي، أبواب الأشربۃ / باب ما جاء في الرخصۃ في الشرب قائمًا ۲؍۱۰ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
کما قال الملا علي القاريؒ : والصواب فیہا أن النہي محمول علی کراہۃ النزیہیۃ، وأما شربہ قائمًا فبیان للجواز ۔ (مرقاۃ المفاتیح ۸؍۲۱۷ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
▪ حدیث شریف کے عموم سے یہی پتہ چلتا ہے کہ پانی بیٹھ کر پیا جائے : جیسا کہ مسلم شریف میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔
البتہ اگر کبھی کھڑے ہوکر پینے کی ضرورت پڑجائے تو کھڑے ہوکر پانی پی سکتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے کھڑے ہوکر جو پانی پینا ثابت ہے، وہ بیانِ جواز کے لیے یا آب زم زم اور وضو کے بچے ہوئے پانی کے ساتھ خاص ہے۔ علماء نے اس قسم کی متعارض احادیث میں اسی طرح تطبیق دی ہے، یعنی اصل عمل مسلم شریف میں موجود حدیث پر کرنا چاہیے، باقی بوقت ضرورت کھڑے ہوکر پینے کی گنجائش ہوگی۔ کھڑے ہوکر پانی پینے کے مسئلے میں بہت زیادہ سختی کا مظاہرہ کرنا اور کسی پر سختی سے نکیر کرنا درست نہیں ہے۔
عن قتادۃ ، عن أنس : ’’ ان النبي ﷺ زجر عن الشرب قائمًا ۔ (صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ ، باب في الشرب قائمًا ، قدیمی، ۲/۱۷۳)
قال الملا علي القاريؒ : والصواب فیہا أن النہي محمول علی کراہۃ النزیہیۃ، وأما شربہ قائمًا فبیان للجواز ۔ (مرقاۃ المفاتیح ۸؍۲۱۷ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
والأحوط الاجتناب عن الشرب قائمًا سیما إذا لم یکن یشتد إلیہ حاجتہ کذا في شرح الشمائل لعصام (قوت المغتذي علی الترمذي: ۲/۱۰)
▪ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا شریعت مطہرہ کے مزاجِ نظافت و پاکیزگی کے خلاف ہے، حدیث شریف میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے : چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : جو شخص تم سے یہ بیان کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر پیشاب کیا کرتے تھے، تو تم اُس کی اِس بات کو سچ نہ مانو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ہی پیشاب کیا کرتے تھے۔
اسی لیے فقہاء نے بلا عذر کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو مکروہِ تنزیہی قرار دیا ہے۔
عن عائشۃ رضي اللہ عنہا قالت : ’’ من حدثکم أن النبي ﷺ کان یبول قائما فلا تصدّقوہ ، ما کان یبول إلا قاعدا ‘‘ ۔ رواہ أحمد والترمذي والنسائي ۔ (ص/۴۳ ، کتاب الطہارۃ ، باب آداب الخلاء ، الفصل الثالث ، الرقم :۳۶۵ ، قدیمي ، سنن النسائي :۱/۶، کتاب الطہارۃ ، باب النہي عن البول قائما ، جامع الترمذي :۱/۹، کتاب الطہارۃ ، باب النہي عن البول قائما)
وقال عامۃ العلماء : البول قائما مکروہ إلا لعذر وہيکراہۃ تنزیہ لا تحریم وہو مذہبنا الحنفیۃ ۔ (۱/۲۴۷ ، کتاب الطہارۃ ، باب البول قائما، بذل المجہود)
وکذا یکرہ ۔۔۔۔۔۔ وأن یبول قائما ۔ در مختار ۔ وفي الشامیۃ : قال العلماء : یکرہ إلا لعذر ، وہي کراہۃ تنزیہ لا تحریم ۔ (الدر المختار مع الشامی باب الأنجاس ، مطلب القول مرجح علی الفعل، ۱/۵۵۷)
ویکرہ أن یبول قائما أو مضطجعا أو متجردا عن ثوبہ من غیر عذر فإن کان بعذر فلا بأس بہ ۔ (۱/۵۰، کتاب الطہارۃ ، قبیل کتاب الصلاۃ، ہندیہ)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 صفر المظفر 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں