*عورت کے لیے مردوں کی امامت کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا عورت مردوں کی امامت کرسکتی ہے؟
مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شرعی نقطہ نظر سے عورت کا عورتوں کے لئے امام بننا حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کےدرمیان مختلف فیہ مسئلہ ہے، مگر عورت کا مردوں کے لئے امام بننا باتفاقِ ائمہ اربعہ ناجائز ہے ۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے آپ ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ پھر طویل حدیث نقل فرمائی ،خبردار کوئی عورت مرد کی امامت نہ کرے ۔
عن جابر بن عبد الله ؓ، قال: خطبنا رسول الله صلی الله علیہ، فقال:…ألا لاتؤمن امرأۃ رجلا۔ الحدیث (سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب في فرض الجمعۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۷۵،دارالسلام رقم:۱۰۸۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
أخّروہنّ من حیث أخرہن اللہ "جہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں پیچھے رکھا وہاں تم بھی انہیں پیچھے رکھو‘‘۔
( المصنف عبد الرزاق (3/58) حدیث : (5129) باب شہود النساء الجماعۃ ۔ نصب الرایۃ (2/29) حدیث (69) کتاب الصلاۃ ، باب الامۃ ، قلت حدیث غریب مرفوعاً وہو فی مصنف عبد الرزاق موقوف علی ابن مسعود)
اس کے علاوہ امامت ایک سرپرستی ہے اور سرپرستی صرف مردوں ہی کے لئے جائز ہے ۔
فرمان نبوی ہے کہ: ماأفلح قوم ولّو أمرہم امرأۃ.
ترجمہ : جس قوم نے اپنا سرپرست عورت کوبنالیا وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہوگی ۔
(صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب البنی صلی اﷲ علیہ وسلم الی کسری ٰوقیصر حدیث : (4425) سنن الترمذی حدیث: (2262) مسند احمد (5/43) حدیث : (20438)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : عورت کا صحنِ کمرہ میں نماز پڑھنے سے کمرہ کے اندر نماز پڑھنا بہتر ہے، اور بڑے کمرہ میں نماز پڑھنے سے کوٹھری میں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔
عن عبد اللّٰہ (بن مسعود) عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلوة المرأة فی بیتہا افضل من صلوتہا فی حجرتہا، وصلوتہا فی مخدعہا افضل من صلوتہا فی بیتہا․ (سنن ابی داود، ص: ۸۴، ج:۱)
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت امام نہیں ہوسکتی، اس لئے کہ کوٹھری بہت تنگ و مختصر جگہ ہوتی ہے، جس میں جماعت قائم کرنا عام طور ممکن نہیں ہوتا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورت امام نہیں بن سکتی : ’’ أنہ قال : لا تؤم المرأۃ ‘‘
(إعلاء السنن ، حدیث نمبر : ۱۲۳۳ ، باب عدم جواز إماۃ المرأۃ لغیر المرأۃ )
اسی طرح متعدد ایسی احادیث ملتی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عورت کے لئے مردوں کی امامت جائز نہیں ہے، اور عہدِ صحابہ سے لے کر آج تک امت کا متواتر ومتوارث اور مسلسل عمل یہ ہے کہ عورت مرد کے لئے امام نہیں بن سکتی، تمام علمأ، فقہأ ومحدثین اور مفسرین اس پر متفق ہیں ۔
لہٰذا ایسا کرنا احکامات شرعیہ کی صریح خلاف ورزی ہے، جس کے لیے ایسا کرنے والے سخت عذاب و عقاب کے مستحق ہوں گے، الا یہ کہ سچی پکی توبہ و استغفار کرلیں ۔
اور اگر کوئی مرد کسی عورت کی اقتداء میں نماز پڑھ لے تو نماز ادا ہی نہیں ہوگی ۔
واجمعوا علی ذلک کما قدمنا عن رحمۃ الامۃ انہ لاتصح امامۃ المرأۃ للرجال فی الفرائض بالاتفاق۔ (اعلاء السنن ،باب عدم جواز إمامۃ المرأۃ لغیر المرأۃ :۴؍۲۵۰)
(ولا یصح اقتداء رجل بامرأۃ)وخنثی (او صبی مطلقا) ولو فی جنازۃ ونفل علی الا صح (درمختار مع رد المختار، ۵۳۱/١، باب الا مامۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 جمادی الاول 1439
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں