ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

نماز جنازہ کا مسنون طریقہ اور تکبیرات میں رفع الیدین کا حکم

*نماز جنازہ کا مسنون طریقہ اور تکبیرات میں رفع الیدین کا حکم*

سوال :

نماز جنازہ کا طریقہ حنفی مسلک کے مطابق کیا ہے؟ فقہ کی کسی کتاب کے حوالے سے ارشاد فرمائیں، نیز ایک ویڈیو یو ٹیوب پر ہے جس میں مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے قائد اور رہنما پہلی تکبیر کے علاوہ دوسری اور تیسری میں رفع یدین کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، جو حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، اس پر بھی مسلک احناف کی روشنی میں اظہار خیال فرمائیں۔
(المستفتی : امتیاز احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز جنازہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے نیت کرلے، اس میت کی دعا کے لیے نماز جنازہ پڑھتا ہوں۔

وفی صلوٰۃ الجنازۃ ینوی الصلوٰۃ ﷲ تعالیٰ والدعاء للمیت۔ (الأشباہ قدیم /۶۲)

امام میت کے سینہ کے برابر کھڑا ہوجائے، اور مقتدی حضرات امام کے پیچھے صف بندی کریں، اور بہتر یہ ہے کہ کم از کم تین صف بنائیں، اس لئے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس کے جنازہ میں تین صفیں ہوں، اس کی مغفرت ہوجاتی ہے، اور اسے جنت نصیب ہوتی ہے۔

عن مرثد بن عبداللہ الیزني قال: کان مالک بن ہبیرۃ إذا صلیٰ علی جنازۃ ، فتقال الناس علیہا جزّأہم ثلاثۃ أجزاء ، ثم قال: قال رسول اللہ ﷺ: من صلی علیہ ثلاثۃ صفوف فقد أوجب ۔(سنن الترمذي، الجنائز ، باب کیف الصلاۃ علی المیت والشفاعۃ لہ ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۰۰، دارالسلام رقم: ۱۰۲۸)

اس کے بعد نماز جنازہ شروع کرنے کے لئے امام تکبیر تحریمہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر باندھ لے، اور اس کے بعد ثناء پڑھے،  ثناء کے بعد ہاتھ اٹھائے بغیر دوسری تکبیر کہے، *ملحوظ رہے کہ نماز جنازہ میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ بقیہ تکبیرات میں رفع یدین کرنا احناف کے نزدیک خلاف اولی ہے۔*
*ہماری دلیل سنن دارقطنی کی وہ روایت جس میں حضرت ابن رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز جنازہ میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھاتے اس کے بعد نہیں۔*(1) لیکن اگر کسی نے کرلیا تو نماز ہوجائے گی، تاہم حنفی مسلک کی کسی بڑی جماعت کے قائد اور رہنما کا ایسا کرنا امت میں سخت انتشار کا سبب بن سکتا ہے، لہٰذا ایسے شخص کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔*

1) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ علی الجنازۃ في أول تکبیرۃ ثم لا یعود۔ (سنن الدار قطني، کتاب الجنائز / باب وضع الیمنی علی الیسریٰ ورفع الأیدي عند التکبیر ۲؍۶۲ رقم: ۱۸۱۴)

لا ترفع الأیدي في صلاۃ الجنازۃ سوی تکبیرۃ الافتتاح وہو ظاہر الروایۃ، (کذا في البحر ۲؍۱۸۳ کوئٹہ، ۲؍۳۲۲ زکریا، درمختار ۲؍۲۱۲ کراچی، ۳؍۱۰۹ زکریا، بدائع الصنائع ۱؍۳۱۴ کراچی، ۲؍۵۳ زکریا)

اور درود ابراہیمی پڑھے، درود ابراہیمی کے بعد ہاتھ اٹھائے بغیر تیسری تکبیر کہہ کر بالغ مرد وعورت کے لئے یہ دعا پڑھے۔

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا، اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہ مِنَّا فَاَحْیِہ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہ مِنَّا فَتَوَفَّہ عَلَی الْاِیْمَانِ۔

نابالغ بچے کے لئے دُعا :

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا۔

نابالغ بچی کے لئے دُعا :

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْھَا لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْھَا لَنَا شَافِعَةً وَّمُشَفَّعَةً۔”

پھر اس کے بعد چوتھی تکبیر کہے اور دونوں طرف سلام پھیر دے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ ہاتھ سلام کے بعد ہاتھ چھوڑا جائے یا پہلے؟

اختلاف کی اصل وجہ کسی صریح حدیث یا اثر کا نہ ہونا ہے۔

چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا ظفر عثمانی، رحمھما اللہ وغیرھم حضرات سلام سے پہلے ہاتھ چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اور مفتی عزیز الرحمن صاحب اور حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہما اللہ وغیرھم حضرات دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ چھوڑنے کو راجح قرار دیتے ہیں، عام طور پر اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔ دونوں طریقہ درست ہے، لہٰذا جو جس پر عمل کررہا ہے، کرتا رہے۔ کسی ایک کو صحیح قرار دے کر دوسرے کو غلط کہنا درست نہیں ہے۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی علی النجاشي، فکبر أربعاً۔ (سنن الترمذي، الجنائز / باب في التکبیر علی الجنازۃ ۱؍۱۹۸ رقم: ۱۰۲۷)

عن الشعبی قال: التکبیرۃ الأولیٰ علی المیت ثناء علی اللہ ، والثانیۃ صلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، والثالث دعاء للمیت، والرابعۃ تسلیم۔(مصنف عبد الرزاق، باب القراء ۃ والصلاۃ فی الدعاء للمیت، المجلس العلمي۳/۴۹۱، رقم: ۶۴۳۴)

عن أبي ہریرۃ ؓ أن رسول اللہ ﷺ کان إذا صلی علی جنازۃ ، قال: اللّٰہم اغفر لحینا، ومیتنا، وشاہدنا، وغائبنا، وصغیرنا ، وکبیرنا،وذکرنا، وأنثانا، اللّٰہم من أحییتہ منّا فأحیہ علی الإسلام، ومن توفیتہ منا فتوفہ علی الإیمان ۔
(المستدرک ، کتاب الجنائز ، قدیم ۱/۳۵۸، مکتبہ نزار مصطفی الباز جدید۲/۵۱۲، رقم:۱۳۲۶، سنن الترمذی الجنائز، باب مایقول فی الصلاۃ علی المیت ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۱۹۸، دارالسلام رقم: ۱۰۲۴)

عن یونس عن الحسن أنہ کان إذا صلی علی الطفل قال: اللّٰہم اجعلہ لنا فرطاً واجعلہ لنا أجراً ۔ (مصنف عبد الرزاق، الجنائز، باب الدعاء علی الطفل ، المجلس العلمي۳/۵۲۹، رقم: ۶۵۸۸)

وفی الصبي والمجنون یقول: اللّٰہم اجعلہ لنا فرطاً ، واجعلہ لنا ذخراً، واجعلہ لنا شافعا ومشفعاً۔ (شرح النقایہ ، باب فی الجنائز ، مکتبہ اعزازیہ دیوبند ۱/۱۳۴/بحوالہ کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
7 شوال المکرم 1439

3 تبصرے:

  1. سلام پھیرنے کے بعد دونوں ہاتھ چھوڑنے کی کوئی صریح عربی حوالہ چاہیئے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. حیث قال فی الدر المختار یضع حالۃ الثناء وفی القنوت وتکبیرات الجنازۃ ۔ پس لفظ تکبیرات ہر چہار تکبیرات کو عام ہے چوتھی تکبیر کو اس سے کسی نے مستثنیٰ نہیں فرمایا اور قاعدہ وضع ید کے بھی موافق ہے اور عمل امت کے مطابق ہے ۔ واضح ہو کہ جنازہ کی ہر تکبیر کے بعد ذکر مسنون ہے ، اول کے بعد ثنا اور دوسری کے بعد درود شریف ، تیسری کے بعد دعا ، چوتھی کے بعد تسلیم۔ ان میں سے ہر ایک ذکر مسنون ہے ۔ (در مختار میں ہے وھو ای الوضع سنۃ قیام (الی ان قال) فیہ ذکر مسنون) قال فی الشامی قولہ فیہ ذکر مسنون ای مشروع فرضا کان او واجبا او سنۃ ۔ شامی ص ۴۵۵ باب صفۃ الصلوٰۃ ج ۱ ص اور در مختار میں بھی باب الجنائز میں ہے ویسلم بلا دعاء بعد الرابعۃ قال الشامی قولہ بلا دعاء ھو ظاھر المذھب وقیل یقول الھم ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ الخ ۔ فتاوی دارالعلوم

      حذف کریں
  2. اللہ آپ کے علم و عمل میں ترقی عطافرمائے

    جواب دیںحذف کریں