*خدارا ! خبر لیجیے معاشرہ بگڑ رہا ہے*
✍ محمد عامر عثمانی ملی
(امام و خطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے اس امت کو قرآن کریم میں خیرِامت کے لقب سے ملقب فرمایا ہے، اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو نفع پہنچانے ہی کے لئے وجود میں آئی ہے، اور اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ خلق اللہ کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکر اس کا فرض منصبی ہے اور پچھلی سب امتوں سے زیادہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تکمیل اس امت کے ذریعہ ہوئی، اگرچہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ پچھلی امتوں پربھی عائد تھا، جیسا کہ احادیث صحیحہ میں مذکور ہے، مگر امم سابقہ میں جس طرح دین کے دوسرے شعائر ان کی غفلت کی وجہ سے محو ہوگئے تھے، اسی طرح فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی بالکل متروک ہوگیا تھا، اور اس امت محمدیہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیشگوئی ہے کہ " اس امت میں تا قیامت ایک ایسی جماعت قائم رہے گی جو فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قائم رہے گی ۔ (متفق علیہ)
چنانچہ اسی فریضہ کی ادائیگی کے لئے متعدد تحریکیں وجود میں آئیں اور اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں، لیکن یہ کام صرف جماعتوں کے اور اجتماعی طور پر کرنے کا نہیں ہے بلکہ امت کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں بقدر استطاعت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہے، جہاں کوئی برائی دیکھے اسے ہاتھوں سے روک دے اگر اس میں فتنہ کا اندیشہ ہوتو زبان سے کہہ دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو دل سے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا سب سے کمتر درجہ ہے، اس سے کم ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے، یہ حکم تو دوسروں کے متعلق ہے، اہل وعیال کے متعلق یہ حکم نہیں ہے، ان کی اصلاح آدمی پر بہرحال فرض ہے خواہ ہاتھ سے کی جائے یا زبان سے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۔ (سورہ تحریم : 06)
ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے ۔
اس آیت میں عام مسلمانوں کو حکم ہے کہ جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی پھر نار جہنم کی ہولناک شدت کا ذکر فرمایا اور آخر میں یہ بھی فرمایا کہ جو اس جہنم کا مستحق ہوگا وہ کسی زور طاقت جتھہ یا خوشامد یا رشوت کے ذریعہ ان فرشتوں کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا جو جہنم پر مسلط ہیں جنکا نام زبانیہ ہے ۔
لفظ اَهْلِيْكُمْ میں اہل و عیال سب داخل ہیں جن میں بیوی، اولاد، غلام، باندیاں سب داخل ہیں اور بعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر چاکر بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آگئی (کہ ہم گناہوں سے بچیں اور احکام الٰہی کی پابندی کریں) مگر اہل و عیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اور جن کاموں کے کرنے کا تم کو حکم دیا ہے تم ان کے کرنے کا اہل وعیال کو بھی حکم کرو تو یہ عمل انکو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا ۔
حضرات فقہاء نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہرشخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال و حرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لئے کوشش کرے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت نازل کرے جو کہتا ہے اے میرے بیوی بچو، تمہاری نماز، تمہارا روزہ، تمہاری زکوٰة، تمہارا مسکین، تمہارا یتیم، تمہارے پڑوسی، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اسکے ساتھ جنت میں جمع فرمائیں گے۔ تمہاری نماز، تمہارا روزہ وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کا خیال رکھو اس میں غفلت نہ ہونے پائے اور مسکینکم یتیمکم وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جو حقوق تمہارے ذمہ ہیں ان کی خوشی اور پابندی سے ادا کرو اور بعض بزرگوں نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب میں وہ شخص ہوگا جس کے اہل و عیال دین سے جاہل وغافل ہوں ۔ (روح المعانی/ معارف القرآن)
اپنے گھروالوں کی طرف سے غفلت و لاپرواہی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرنے والوں کے متعلق حدیث شریف میں سخت وعید وارد ہوئی ہے :
نبی کریم ﷺ نے فرمایا " تین طرح کے آدمیوں پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کر دیا ہے، ایک تو وہ شخص جو ہمیشہ شراب پئے، دوسرا وہ شخص جو اپنے والدین کی نافرمانی کرے، اور تیسرا وہ دُیوث کہ جو اپنے اہل وعیال میں ناپاکی پیدا کرے۔(احمد، نسائی)
طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ " دُیُوث " اس بے غیرت شخص کو کہتے ہیں جو اپنے اہل یعنی اپنی عورت کو کسی برائی میں مبتلا دیکھے لیکن نہ تو اس کو اس کی وجہ سے کوئی غیرت محسوس ہو اور نہ اس کو اس برائی سے منع کرے (یعنی اپنی عورت کے پاس غیر مردوں کا آنا گوارا کرے ۔
مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ " دیوث " کو کشخان " اور " قرنان" بھی کہتے ہیں لیکن بعض حضرات نے دیوث ، کشخان وہ ہے جو اپنی بہنوں کے پاس غیر مردوں کو آنے دے اور قرنان وہ ہے جو اپنی بیٹیوں کے پاس غیر مردوں کو آنے دے ۔
محترم قارئین ! شہرِ عزیز میں یکے بعد دیگرے بے حیائی اور بے غیرتی کے شرمناک و افسوسناک واقعات رونما ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے ہر دینی مزاج رکھنے والا مسلمان غم زدہ اور فکرمند ہے ۔
ان واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟
اگر درج بالا تمہید کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ گھر کے بڑے اور ذمہ داران کی طرف سے کوتاہی اور ان کی اپنے فرض منصبی سے روگردانی کے نیتجے میں یہ واقعات رونما ہورہے ہیں ۔
آج غیرشادی شدہ بچیوں کو اسمارٹ فون مع انٹرنیٹ کنکشن، اسکوٹی، اور غیر ضروری ٹیوشن کی آزادی دے کر والدین خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ یہ چیزیں ان کی عزت، عفت و پاکدامنی کو کب کہاں اور کیسے داغدار کردے گی ۔
ہمیں یہ ماننا ہی ہوگا کہ موجودہ دور میں لڑکوں اور خصوصاً لڑکیوں میں بے راہ روی اور بے حیائی کے در آنے میں یہی تینوں چیزیں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں، لہٰذا والدین پر ضروری ہے کہ انتہائی ضروری صورت میں انہیں موبائیل، بائک اور ٹیوشن وغیرہ کی اجازت دیں، اور ان کی سخت نگرانی کریں، اسکول، ٹیوشن وغیرہ خود چھوڑنے اور لانے کے لیے جائیں، غیرضروری سہیلیوں سے پرہیز کروائیں، بلاتردد ان کے موبائیل کا معائنہ کریں، اور ان سب سے بڑھ کر ان کی ایسی دینی تربیت کریں کہ ان کا بے راہ روی کی طرف راغب ہونا ہی محال ہوجائے ۔ اسی کے ساتھ اپنی کمائی پر بھی توجہ فرمائیں کہ کہیں ہماری روزی روٹی میں تو کوئی نقص نہیں جس کی وجہ سے ہمارے اور ہماری اولاد کے اعمال بگڑ رہے ہیں، امید ہے کہ والدین اور سرپرست حضرات ان گذارشات پر توجہ فرمائیں گے، اور معاشرے کو صالح اور پاکیزہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو حیا اور پاکدامنی کی زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں صالح اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کا ذریعہ بنائے ۔ آمین یا رب العالمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں