*کرایہ داری میں ڈپازٹ دی گئی رقم پر زکوٰۃ کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ میرے پاس ایک پلاٹ جس کی قیمت 3 لاکھ روپے ہے اور میری دو عدد دکان جس کو میں نے کرایہ پر لیا اب میں نے ایک دکان کرائے پر لیتے وقت دیڑھ لاکھ اور دوسری دکان کرایہ پر لیتے وقت 80 ہزار بطور اڈوانس دیا تو کیا اس اڈوانس پر زکوٰۃ ہوگی اور اگر ہوگی تو کتنی ہوگی؟
(المستفتی : تنویر احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر آپ کا پلاٹ تجارت کے لئے نہیں ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
2) آپ کی ایڈوانس کی رقم مالک دوکان کے پاس رہن ہے، جب آپ دوکان خالی کریں گے، اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کرسکتے ہیں، اور مال رہن میں زکوۃ کسی پر واجب نہیں ہوتی، نہ رہن رکھنے والے پر اور نہ اس شخص پر جس کے پاس رہن رکھا گیا۔ تو بظاہر اس کی حیثیت رہن کی معلوم ہوتی ہے اس بناء پر اس کی زکوٰۃ شئ مرہون کے ضابطہ کے اعتبار سے نہ تو مالک پر واجب ہونی چاہئے اور نہ کرایہ دار پر۔ (مستفاد: محمود الفتاویٰ ۲؍۲۶، ۲؍۴۶۱، نئے مسائل اور علماء ہند کے فیصلے ۵۴، کتاب الفتاویٰ ۳؍۲۷۸)
نوٹ : ڈپازٹ کی رقم کو رہن ماننے کی صورت میں اصل حکم شرعی یہ ہوگا کہ یہ ڈپازٹ کی رقم مالک اپنے تصرف میں بالکل نہیں لاسکتا، بلکہ بطور امانت اپنے پاس محفوظ رکھے، لیکن لوگوں کا عمل اس کے برخلاف ہے، کیونکہ کوئی بھی مالک مکان و دوکان کرایہ دار سے اس رقم کو لے کر محفوظ نہیں رکھتا، بلکہ بلاتکلف اپنے ذاتی استعمال میں لاتا ہے. الا ما شاء اللہ۔
لہٰذا مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ شئ مرہون میں تصرف کرلینے کی بنا پر اسے رہن کے بجائے دین مضمون کے درجہ میں رکھا جائے، یعنی یہ رقم گویا کہ مالک پر کرایہ دار کی طرف سے قرض ہے، لہٰذا اس کی زکوٰۃ مالک دوکان یا مکان پر واجب نہیں ہوگی، بلکہ کرایہ دار پر واجب ہوگی جو اس رقم کا اصل مالک ہے۔
چنانچہ علامہ شامیؒ نے بیع الوفاء کی ثمن کے متعلق بحث کرتے ہوئے جو رائے ظاہر فرمائی ہے اس سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے، موصوف فرماتے ہیں : قلت: ینبغی لزومہا علی المشتری فقط علی القول الذی علیہ العمل الآن من ان بیع الوفاء منزل منزلۃ الرہن وعلیہ فیکون الثمن دینا علی البائع۔ (شامی بیروت ۳؍۱۶۶)
تاہم اس بارے میں یہ تفصیل مناسب ہے کہ اگر کرایہ داری معاہدہ میں مکان یا دوکان خالی کرنے کا کوئی قریبی وقت مقرر ہے تو یہ ڈپازٹ کی رقم ’’دین قوی‘‘ کے درجہ میں ہوگی، اور جب مقررہ وقت پر کرایہ دار دوکان یا مکان خالی کرکے اپنی رقم واپس وصول کرلے گا تو سابقہ سالوں کی زکوٰۃ بھی ادا کرنی واجب ہوگی، اور اگر کرایہ کے معاہدہ میں مکان یا دوکان خالی کرنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے تو یہ دین متوسط یا دین ضعیف کے درجہ میں ہے، یعنی کرایہ دار رقم وصول کرنے کے بعد سابقہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کا مامور نہ ہوگا، بلکہ جب رقم اس کے قبضہ میں آجائے گی اسی وقت سے زکوٰۃ کا حساب شروع ہوگا۔
صورت مسئولہ میں اگر کرایہ داری کا معاہدہ دو تین سال کا ہو تو آپ کی ایڈوانس دی گئی دو لاکھ تیس ہزار کی رقم پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔
عن ابن عمر ؒؓ قال : لیس فی العروض زکاۃ ، إلا ماکان للتجارۃ ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ التجارۃ ،دارالفکر ۶/۶۴، رقم: ۷۶۹۸)
مستفاد : کتاب المسائل 2/222)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
5 رمضان المبارک 1439
بهترين تحقيق ماشاءالله
جواب دیںحذف کریںبہترین تحقیق، مولانا عثمانی کے مختصر مقالہ نما فتاوی جات سے اس سے پھلے بھی میں مستفید ہوچکا ہوں، خاص کر جبکہ غازی ارطغرل کے کردار پر ریلیز ترکی ڈرامہ مولانا نے اپنی تحقیق بروقت پیش کی تھی، اللہ تعالی ان کو جزائے خیر عطا فرمائیں، تاہم مذکور مسئلہ میں جبکہ قرض طویل المیعاد ہوجائے تو اس کو دین قوی سے نکال کر ضعیف یا متوسط میں شمار کرنا محل نظر ہے، اس لئے کہ دین اگرچہ طویل المیعاد بھی ہو لیکن چونکہ وہ موثق ہے اور اس مدیون اس کا اقرار بھی کررہا ہے، تو کیسے اس کو دین قوی سے ہٹاکر متوسط یا ضعیف میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ہذا ما عندی الصواب من اللہ تعالی والخطٲ منی ومن الشیطان
جواب دیںحذف کریںآپ کی بات بھی درست ہے۔ البتہ ہندوستان کے اکابر مفتیان کرام نے اسی کے مطابق فتوی دیا ہے، لہٰذا بندہ نے بھی اسی کے مطابق جواب لکھا ہے۔ حوالہ جات جواب میں موجود ہیں۔
حذف کریںجزاکم اللہ خیر
حذف کریںاطمنان بخش جواب
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ فی الدارین
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین ثم آمین
السلام علیکم
جواب دیںحذف کریںایک غیر مسلم بھائی کا سوال ہے کہ مسلمان کیوں نہیں اپنے جسم کو دان کرتے ہے.کیا اسلام میں جسم کے حصے دان کرنا حرام ہے.ان کی یہ سوچ ہے کہ مسلمان ضرورت پڑنے پر کسی اور کا جسمانی حصہ لے سکتا ہے لیکن وہ اپنا جسمانی حصہ نہیں دے سکتا ہے.اس کی کیا حقیقث ہے.
اس واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ فرمائیں۔
حذف کریںعمدہ تحقیق۔۔۔
جواب دیںحذف کریںالگ الگ مسائل کے تسلی بخش جواب..... جزاک اللہ خیرا 🌹
جواب دیںحذف کریں