اتوار، 28 اکتوبر، 2018

خواتین اسلام کا تحفظ شریعت جلوس میں شرکت کرنا

*خواتین اسلام کا تحفظ شریعت جلوس میں شرکت کرنا*

سوال
اگر خواتین کا ریلی کے لیے گھروں سے نکلنا جائز ہے تو جماعت کی نماز اور عیدین کے لیے نکلنا جائز کیوں نہیں؟
علماء کرام تشفی بخش جواب جوش میں نہیں، ہوش میں دلائل کی روشنی میں دیں ۔
اس لیے کہ سوال غیر مقلدین کا ہے ۔
...........................................................
الجواب وباللہ التوفيق : ارسال کردہ تحریر میں جو اعتراض سوال کے پیرایہ میں کیا گیا ہے اس کے متعلق ہماری اس تحریر کو باقاعدہ فتوی نہ سمجھا جائے، بلکہ اس اعتراض کا رد سمجھا جائے ۔

سب سے پہلی بات یہ کہ غیرمقلدین کو مطمئن کرنے اور ان کے ہر اعتراض کا جواب دینے کے ہم مکلف نہیں ہیں، خواتین کے مسجد نہ جانے کے متعلق تمام دلائل شرح وبسط کے ساتھ کتب فقہ و فتاوی میں موجود ہیں، وہاں مراجعت فرمالی جائے، یہاں ہم اس سے قطع نظر اپنے ہم مسلک احباب کے لئے کچھ باتیں تحریر کررہے ہیں ۔

دوسری بات یہ کہ تحفظ شریعت کے لئے نکلنے والے خواتین اسلام کے جلوس پر ہمارے عوام کو اعتراض نہیں ہے، اس لئے کہ اگر عوام کو اعتراض ہوتا تو جس کثیر تعداد میں خواتین اسلام نے اس میں شرکت کی ہے، ایسا قطعاً نہیں ہوتا ۔

تیسری بات یہ کہ اصل اعتراض غیر مقلدین کو بھی نہیں ہے بلکہ ہماری ہی صف کے بعض علماء معاصرتی چشمک کی وجہ سے یہ سوال کررہے ہیں، جسے غیر مقلدین کے کندھے پر بندوق رکھ چلانا کہا جائے گا ۔

اس جگہ راحت اندوری صاحب کا ایک شعر بہت یاد آرہا ہے، جو موقع کی مناسبت سے بالکل صادق آتا ہے ۔

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ  صرف ہمارا  مکان تھوڑی  ہے

مطلب یہ ہے کہ اگر خواتین اسلام کے تحفظ شریعت کے عنوان سے ہونے والے اجتماع پر پابندی کی بات کی جائے یا اسے ناجائز قرار دیا جائے، تو پھر مساجد اور دیگر جگہوں پر ہونے والے درس قرآن، اصلاحی مجالس و جلسوں وغیرہ میں خواتین اسلام کے شریک ہونے کی درخواست جو کہ خود انھیں معترض علماء کی طرف سے بھی کی جاتی ہے، تو وہ ایسا کس دلیل کی بنیاد پر کرتے ہیں؟

یہاں بھی تو خواتین اسلام کا گھروں سے نکلنا پایا جاتا ہے،
تو کیا اسے بھی ناجائز قرار دے دیاجائے؟

اگر معترض علماء اسے جائز سمجھتے ہیں تو وہ خود غیر مقلدین کو اس کا جواب دیں، ورنہ اپنے جلسوں اورمجالس میں خواتین اسلام کی شرکت پر پابندی لگائیں ۔

تحفظ شریعت کے عنوان سے خواتین اسلام کا جلوس جو کہ خاموشی اور پردہ کی رعایت کے ساتھ نکالا گیا تھا ۔
اور یہ جلوس آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ( جس میں تمام مسلک کے علماء کرام کی نمائندگی ہوتی ہے) کی ایما پر اور شہر عزیز کے جید اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کے علماء و مفتیان کرام کی تائید و حمایت اور ان کی کوششوں سے اس کا انعقاد کیا گیا تھا، ان علماء کرام کو شریعت اور سیاست دونوں اچھی طرح سمجھتی ہے، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دو چار علماء نے اس کی تائید کی ہو بلکہ علماء کرام کی اکثریت نے اس کی تائید کی ہے اور جنہوں نے تائید نہیں کی انھوں نے اس کی مخالفت یا اس کے متعلق لوگوں کا ذہن خراب کرنے کی کوشش بھی نہیں کی، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی کہا جائے گا کہ یہ جلوس غیر شرعی نہیں تھا بلکہ ایسے مواقع پر شریعت اس کی اجازت دیتی ہے ۔
جیسا کہ صاحب کتاب النوازل نے عورتوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے سوال پر تحریر فرمایا ہے :

عورت کا بے پردہ رہنا کسی حال میں جائز نہیں، دوسری طرف اگر خواتین کے لئے مخصوص سیٹوں پر مسلم عورتیں اُمیدوار ہی نہ بنیں، تو ایسی صورت میں حکومت کی سیٹوں میں مسلم نمائندگی مفقود ہونے کی وجہ سے قومی وملی نقصان کا اندیشہ، بلکہ یقین ہے. بریں بنا ’’اَہون البلیتین‘‘ کو اختیار کرتے ہوئے مسلم عورتوں کو شرعی حدود میں رہ کر ایسی سیٹوں میں انتخاب میں حصہ لینے کی گنجائش دی جائے گی، اور اُن پر لازم ہوگا کہ انتخاب سے پہلے اور انتخاب کے بعد ممکن حد تک شرعی پابندیوں کا لحاظ رکھیں، اگر نہیں رکھیں گی تو گنہ گار ہونگی. (مستفاد: دعوتِ فکر وعمل ۳۷۱، کتاب النوازل)

لہٰذا اگر سیاست اور شریعت کے ماہر علماء و مفتیان کرام کو غالب گمان ہوکہ خواتین اسلام کے باپردہ گھروں سے نکل کر احتجاج کرنے کی وجہ سے حکومت شریعت میں مداخلت کی مذموم حرکت سے باز آسکتی ہے، اور اسلام اور شریعت کی حفاظت ہوسکتی ہے تو ان کا پردہ کی رعایت کے ساتھ نکلنا اور احتجاج کرنا جائز ہوگا ۔ تاہم اس میں شرکت کو ایمان یا جنت کا سرٹیفکیٹ سمجھنا اور کہنا اسی طرح اسے خواتین اسلام کا جہاد قرار دینا اور اس میں شرکت نہ کرنے والوں کو برا بھلا کہنا قطعاً درست نہیں ہے، اس لئے کہ یہ حکم قطعی دلائل کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ظنی دلائل کی بنیاد پر اس کی گنجائش دی گئی ہے ۔

اخیر میں اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ خواتین اسلام کے نکلنے کو قبول فرمائے اور اس کی برکت سے حکومت وقت کو شریعت مطھرہ و کاملہ میں مداخلت جیسے ناپاک عزائم کو ناکام و نامراد فرمائے، ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق قائم فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین

إذا تعارض مفسدتان روعي أعظہما ضررًا بإرتکاب أخفہما - إلیٰ قولہ - من ابتلی ببلیتین وہما متساویتان یأخذ بأیتہما شاء، وإن اختلفا یختار أہونہما۔ (الأشباہ والنظائر ۱۴۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں