اتوار، 28 اکتوبر، 2018

کرکٹ کھیلنے اور اس کے ٹورنامنٹ کے انعقاد کا شرعی حکم

*کرکٹ کھیلنے اور اس کے ٹورنامنٹ کے انعقاد کا شرعی حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کرکٹ کھیلنے کا شرعی حکم کیا ہے؟
اور کرکٹ کے ٹورنامنٹ کے انعقاد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
براہ کرم مدلل مفصل جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : محمد اسماعیل، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر مسلمان کو اپنی عبادت و معرفت کے لئے پیدا کیا ہے، اسلام انسان کو بامقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے، ایسی بامقصد زندگی جس کی بنیاد ہر وقت اللہ کی رضا کی طلب و چاہت ہو، آخرت کے بنانے کی فکر ہو اور لہوولعب سے احتراز ہو، یہی زندگی اہل ایمان کی پہچان ہے، اور جس زندگی کی بنیاد لہوولعب پر مشتمل غفلت و بے پرواہی ہو وہ کفار کا شعار ہے ۔

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں : وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۝
(المومنون، آیت، 3) کہ اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔

لہٰذا شرعی نقطہ نظر سے ہر وہ کام، قابلِ تعریف ہوگا جو انسان کو مقصدِ اصلی پر گامزن رکھے، اسی کے ساتھ ہر اس کام کی بھی اجازت ہے، جس میں دنیا وآخرت کا یقینی فائدہ ہو، یا کم از کم دنیا وآخرت کا نقصان تو نہ ہو، اسی وجہ سے کھیلوں میں سے بھی صرف انھیں اقسام کی اجازت ہے، جو جسمانی یا روحانی فوائد کا حامل ہوں، وہ کھیل جو حیات مستعار کے اہم و قیمتی لمحات کو ضائع کرنے کا ذریعہ ہوں، فکرِ آخرت سے غافل کرنے والے ہوں، وہ کھیل جو دوسروں کے ساتھ دھوکہ فریب یا ضرر رسانی پر مبنی ہوں، ان کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ تفریح کے معاملے میں اسلام نے تنگ نظری سے کام لیا ہے، بلکہ کچھ شرطوں کے ساتھ کھیلوں کی اجازت دی ہے ۔

1) کھیل میں ستر کے حدود کی رعایت کی جائے ۔

2) کھیل میں ایسا مصروف نہ ہو کہ دینی فرائض سے بھی غفلت ہوجائے ۔

3) ایسی دو طرفہ شرطیں نہ ہوں کہ جس سے قمار کی صورت پیدا ہوجائے۔

4) پھر ان میں وہ کھیل جس سے جسمانی ورزش و چستی پیدا ہو، تو زیادہ پسندیدہ ہے، جس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گھوڑ سواری، دوڑ اور تیر اندازی کو پسند فرمایا، جو جسم میں چستی و توانائی کا باعث بنتے ہیں. (امداد المفتیین ص: ۱۰۰۲، جدید فقہی مسائل۱؍۲۵۴)

چنانچہ جسم کی ورزش اور بدن کی تندرستی بڑھانے کے لئے بطور ورزش کوئی بھی ایسا کھیل جائز ہے، جو شریعت کے احکامات کو پامال نہ کرتا ہو اور اس کھیل کو کھیلنے والوں کیلئے ستر پوشی اور حدود کی رعایت رکھ کر تندرستی اور ورزش کی غرض سے کرکٹ، فٹ بال، وٹینس بھی کھیلنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس کھیل میں نماز باجماعت سے اور اپنی دینی، دنیاوی ومعاشی ذمہ داریوں سے غفلت نہ ہو ۔

ملحوظ رہے کہ کرکٹ کو ورزش کے طور پر نہ کھیل کر مستقل اس کو مقصود بنالینا، اور کھیل میں اس طرح منہمک ہوجانا کہ شرعی فرائض میں بھی کوتاہی اور غفلت پائی جانے لگے، ایسی صورت میں یہ کھیل مبغوض ہوجاتے ہیں جن کا ترک کردینا واجب ہوتا ہے ۔

کرکٹ میچ عام طور پر تین طرح کے ہوتے ہیں جس میں سے دو صورتیں ناجائز اور حرام ہیں، پہلی صورت اس طرح ہے کہ مثلاً ٹیم کا کپتان زید پوری ٹیم سے یا چند کھلاڑیوں سے کچھ چندہ، پیسے جمع کرتا ہے، جس کا مجموعہ پانچ سو روپے بنتے ہیں، اب زید نے دوسری ٹیم کیساتھ میچ مقابلہ رکھا اور یہ مقابلہ جو بھی ٹیم جیتے گی وہ انعام کے پانچ سو روپے کے مستحق ہوگی، اب فرض کریں زید نے یہ مقابلہ جیتا ہے اور جیتنے کے بعد وہ پانچ سو روپے جو اس نے اپنے ساتھیوں سے جمع کئے تھے وہ ان ساتھیوں کو واپس کرتا ہے اور باقی جو پانچ سو روپے انعام میں ملے ہیں وہ ٹیم کے ساتھیوں پر تقسیم کردیتا ہے ۔

دوسری صورت مقابلہ کی یہ ہے جس کو کرکٹ کی اصطلاح میں "ٹورنامنٹ" کہا جاتا ہے، مثلاً یہ ٹورنامنٹ عمر چلا رہا ہے، اور اس ٹورنامنٹ میں کُل چھ ٹیمیں حصہ لیں گی، اور فی ٹیم پانچ سو روپے فیس جمع کی جائے گی، پھر کچھ مرحلوں سے گزرنے کے بعد دو ٹیمیں فائنل میں پہنچ جاتی ہیں، پھر اس میں جو ٹیم جیتے گی اس کو بارہ سو روپے اور ہارنے والی ٹیم کو آٹھ سو روپے انعام کے طور پر دئیے جاتے ہیں، اور باقی جو رقم بچ جاتی ہے عمر اس کو کچھ ٹورنامنٹ کے دوران اخراجات پر خرچ کر لیتا ہے اور باقی رقم اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے ۔

مذکورہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں، اس لئے کہ دونوں صورتوں میں جوا اور قمار پایا جاتا ہے، قمار ہر اس معاملے کو کہتے ہیں جس میں کچھ زائد ملنے کی امید کے ساتھ ساتھ اپنا مال جانے کا خطرہ بھی ہو، مذکورہ دونوں صورتوں میں بھی ہر ٹیم کو جیتنے کی صورت میں اپنی جمع کردہ رقم سے زائد ملتا ہے، اور ہار جانے کی صورت میں اپنی جمع کردہ رقم سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، اسی کو جوا اور قمار کہتے ہیں، جو کہ بہ نص قطعی ناجائز اور حرام ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۝
(المائدہ : آیت، 90)
ترجمہ : اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو ۔

جہاں تک اس کے جائز متبادل کی بات ہے تو پہلے مسئلے میں جہاں دو ٹیمیں آپس میں مد مقابل ہوتی ہیں جواز کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ :

یا تو شرط کسی ایک جانب سے لگائی جائے یعنی ایک ٹیم، دوسری ٹیم سے کہے : اگر تم جیت گئے تو ہم، تم کو اتنے روپے دیں گے اور اگر ہم جیت گئے تو ہم کچھ نہ لیں گے ۔

اور یا پھر کوئی ثالث ( تیسرا فریق) جیتنے والی ٹیم کو بطور انعام اپنی طرف سے تبرع اور احسان کے طور پر دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور ٹورنامنٹ کی صورت میں چوں کہ کئی ٹیمیں آپس میں مد مقابل ہوتی ہیں، لہٰذا اس میں جواز کی صرف ایک ہی صورت ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ کوئی تیسرا فریق اپنی طرف سے جیتنے والی ٹیم کو بطور انعام کچھ رقم دے دے ۔

واضح رہے کہ آج کل جس طرح سے یہود ونصاری نے مسلمانوں کے ذہنوں پر باطل کی محنت کرکے انہیں کھیل کود، لہو ولعب اور سیرو تفریح جیسے ضیاع وقت کے اسباب میں مشغول کرکے اپنے مقصدِ اصلی سے ہٹا دیا ہے، اور اس مختصر سی زندگی کے قیمتی لمحات وہ جس طرح سے لایعنی میں ضائع کرتے ہیں کہ انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا، اسلام قطعاً ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ۔

بلکہ ہمارا فرضِ اولین یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر ہر موڑ پر شریعت کے حکم کو معلوم کرکے اپنی تمام تر اغراض، خواہشات اور مفادات کو پس پشت ڈال کر، حکم خداوندی کی تعمیل کریں، یقیناً اسی میں ہماری ابدی کامیابی اور دنیا وآخرت کی سرخروئی ہے، نہ یہ کہ ہم ہر مسئلے میں دین اور شریعت کو اپنی خواہشات کے تابع سمجھیں اور اگر خواہشات پوری نہ ہوں تو اس حکمِ شرعی کو غیر فطری سمجھتے ہوئے یا ” تکلیف مالا یطاق“ گردانتے ہوئے پس پشت ڈال دیں ۔

لہٰذا کرکٹ یا کوئی بھی کھیل اگر اس کو کھیل ہی کی حد تک محدود رکھا جائے اور اس میں کسی حرام کا ارتکاب نہ ہو رہا ہو تو اسے کھیلنے میں حرج نہیں، اور اگر خدا نخواستہ ایسا نہ ہو تو اسے ترک کر دینا لازم ہے ۔

تاہم اس کا ٹورنامنٹ منعقد کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے، اس لئے کہ کرکٹ ایک طویل الوقت کھیل ہے، جو نہ صرف کھیلنے والوں، بلکہ دیکھنے والوں اور اس کی خبر رکھنے والوں کو بھی ایک طرح کے نشہ غفلت میں مبتلا کردیتا ہے، چنانچہ اسی وجہ سے فقہاء نے شطرنج کو قمار نہ ہونے کی صورت میں بھی مکروہ قرار دیا ہے ۔

ما في ’’ الألعاب الریاضیۃ ‘‘ : یقول ’’ د ‘‘ یوسف القرضاوي حفظہ اللہ : والحق أن السفہ فی إنفاق الأوقات أشد خطراً من السفہ في إنفاق الأموال ۔۔۔۔۔۔ لأن المال إذا ضاع قد یعود ، والوقت إذا ضاع لا عوض لہ ۔ (ص/۳۲۰ ، مکتبۃ دار النفائس أردن ، أحکام القرآن للتھانوي :۳/۲۰۱) 
(فتاوی اشاعت العلوم اکل کوا : رقم الفتوی :۴۰، رج:۱، المسائل المہمۃ فیما ابتلت بہ العامۃ :۲/۲۲۹ -۲۳۱)

وقال الشاميؒ: أما إذا قصد التلہي، أو الفخر، أو لتریٰ شجاعتہ، فالظاہر الکراہۃ۔ وفي الدر المختار: أما بدونہ فیباح في کل الملاعب۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الإستبراء وغیرہ، زکریا ۹/۵۷۷،)

وعلیٰ ہذا الأصل فالألعاب التی یقصد بہا ریاضۃ الأبدان أو الأذہان جائزۃ فی نفسہا مالم تشتمل علی معصیۃ اخریٰ ومالم تؤ د الانہماک فیہا إلیٰ الإخلال بواجب الانسان فی دینہ ودنیاہ۔ ( تکملہ فتح الملہم ،کتاب الشعر ، باب تحریم اللعب بالنرد شیر ، حکم الألعاب فی الشریعۃ، اشرفیہ دیوبند ۴/۴۳۶)
مستفاد : فتوی جامعہ بنوریہ، ماہنامہ. دارالعلوم، تفریح اور کھیل کود کے جائز وسائلاوراس کے شرعی ضابطے، از: مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 رجب المرجب 1439

2 تبصرے:

  1. ,ہمارے علاقہ میں اسکو لیکر فتنہ چل رہا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت اچھا اور مفصل جواب آللہ پاک علم میں برکت عطا فرمائیں

    جواب دیںحذف کریں