ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

کیا مولوی سعد صاحب کے غلط اقوال و اعمال کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا ان کی غیبت ہے؟

*کیا مولوی سعد صاحب کے غلط اقوال و اعمال کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا ان کی غیبت ہے؟*

سوال :

مفتیان کرام امید ہے کہ مزاج بخیر ہوں گے.
ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے امید ہیکہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب عنایت فرمائیں گے.
ہمارے علاقے میں چند دن پہلے تبلیغی جوڑ ہوا جسمیں مہاراشٹر کے ذمہ داران نے بیانات کیے علماء کی مجلس میں جو بیان ہوا اس میں زیادہ تر مولانا سعد کاندھلوی کی برائی بیان کی گئی بلکہ انکا نام لیکر پرانی پرانی باتوں کو امت کے سامنے لایا گیا اور بھی بہت سے باتیں اور برائیاں مولانا سعد کی کی گئی  سوال یہ نہیں ہیکہ مولانا سعد کیسے ہیں اور کیا ہیں؟ سوال یہ ہیکہ اس طرح مسجد میں بیٹھکر کسی کی برائیاں بیان کر سکتے ہیں یا نہیں ؟؟  کیا اس کو غیبت کہیں گے یا نہیں ؟؟  کیا ذمہ داروں کا اس طرح برائیوں کا بیان کرنا صحیح ہے ؟  امید ہیکہ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔
( المستفتی: صغيراحمد ، جلگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : چند دنوں پہلے جب آپ کا سوال موصول ہوا تو بندہ نے اس کو نظر انداز کردیا، کیونکہ بندہ عام طور پر اس نوعیت کے مسائل میں حتی الامکان خود کو دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن آپ کے بار بار اصرار کی وجہ سے جواب لکھ رہا ہوں تاکہ آپ کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين

سب سے پہلے آپ یہ سمجھ لیں کہ مطلقاً کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی، غلطی یا عیب کو بیان کرنا غیبت نہیں ہے، بلکہ بعض مواقع ایسے بھی ہوتے جہاں علماء کرام نے غیبت کو غیبت نہیں کہا ہے، ان مقامات کو امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم شریف کی شرح میں اور فقہ حنفی کے مشہور و معروف فقیہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں ذکر فرمایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

1) مظلوم کا فریاد رس کے پاس ظالم کے ظلم کو بیان کرنا۔

2) کسی کی اصلاح کی نیت سے اس کے سرپرست (اس کے استاد یا والد وغیرہ جس سے اصلاح کی امید ہو) کے پاس اس کے عیب کو بیان کرنا۔

3) مفتی کے پاس فتویٰ طلب کرنے کے لئے۔

4) خرید وفروخت میں کسی کو دھوکے میں پڑنے سے بچانے کے لیے۔

5) رشتہ نکاح کیلئے، شراکت داری، امانت رکھنے کے لئے یا رفاقت سفر کے لئے کسی کے بارے میں استفسار کرنے پر صحیح صورتِ حال سے مطلع کردینا جائز ہے۔

6) دینداری کا لبادہ اوڑھ کر دینی و دنیوی نقصان پہنچانے والے کے شر سے لوگوں کو باخبر کرنا۔

7) افسوس اور رحم کے جذبہ سے کسی کی کمزوری یا عیب کا ذکر کرنا۔

8) کھلم کھلا فسق و فجور کرنے والے کے فسق و فجور کو ذکر کرنا، جبکہ اس فسق و فجور پر خود فاعل کو پشیمانی نہ ہوتی ہو، یہ بھی جائز ہے۔

9) حدیث کے راویوں کی یا مصنفین کی یا گواہوں کی جرح کرنا، یعنی ان کی ان کمزوریوں کو بیان کرنا جس سے ان کا معتبر ہونا ساقط ہو جاتا ہے، حفاظتِ دین کے لیے اس کو بیان کرنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔

10) دین میں نئی بات پیدا کرنے والے کی حرکتوں کو لوگوں میں بیان کرنا اس کی باتوں میں پڑنے سے لوگوں کو بچانے کے لیے اس کی حرکتوں کو لوگوں میں ظاہر کرنا واجب ہے۔

11) فاسدالعقیدہ آدمی کی بد عقیدگی کو بیان کرنا تاکہ لوگ اس سے بچیں، یہ بھی ضروری ہے۔

12) عرف کے ساتھ تذکرہ کرنا، یعنی کسی کا ایسا عیب بیان کرنا جو اس کا عرف ہی بن گیا ہو، اور صاحب عیب کو برا بھی نہ معلوم ہوتا ہو۔

مذکورہ بالا مقامات میں دو مقامات، 10، 11 کے پیش نظر بعض علماء مولوی سعد صاحب کی ان غلطیوں کو بیان کرتے ہیں جس کی وجہ سے عوام الناس میں بعض فکری گمراہیوں کے پھیلنے کا سخت اندیشہ ہے، ازہر ہند دارالعلوم دیوبند نے بھی اسی اندیشہ کے تحت باقاعدہ نام بنام فتوی جاری کیا، اور دنیا بھر کے بڑے بڑے اداروں اور علماء نے اس کی تائید و حمایت کی، اور اب تک دارالعلوم دیوبند کو مولوی سعد صاحب کی طرف سے مکمل طور پر اطمینان نہیں ہے، چنانچہ عوام الناس کی اصلاح اور ان کی فکری گمراہی کے سد باب کے لئے مولوی سعد صاحب کی غلطیوں کو بیان کرنے کو غیبت نہیں کہا جائے گا، خواہ وہ مسجد میں کی جائے یا اور کہیں، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ ایسا حفاظتِ دین کے لیے ہی کیا جاتا ہے، اگر اسے غیبت کہا جائے تو پھر آپ کا سوال بھی ان علماء کرام کی غیبت ہی کہلائے گا جن کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے۔ لہٰذا اسے غیبت کہنے اور ثابت کرنے کے بجائے آپ ان علماء کرام سے براہ راست ملاقات کرکے ان سے مکمل صورتِ حال معلوم کریں، اور دلائل سے انھیں قائل کرنے کی کوشش کریں، بصورت دیگر ان علماء کے متعلق بدگمانی کو دور کریں۔

تاہم ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جس کا اعتراف بھی انتہائی اہم اور ضروری ہے، اور انصاف کا تقاضہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں نے مولوی سعد صاحب سے اختلاف کے معاملہ میں غلو سے کام لیا ہے یہاں تک حد سے تجاوز کرگئے ہیں، مولوی سعد صاحب پر بے جا الزامات بھی عائد کرتے ہیں، ایسے لوگوں سے علماء ربانیین نے برأت کا اظہار کیا ہے، اور ان کی مذمت کی ہے، ہم بھی کرتے ہیں، اور انھیں نصیحت کرتے ہیں کہ اس طرح کی قبیح اور شنیع حرکتوں سے باز آجائیں ورنہ بروز حشر مؤاخدہ یقینی ہے۔

اللہ تعالٰی مجھے اور آپ کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، شخصیت پرستی سے حفاظت فرمائے، اور علماء ربانیین کی اتباع اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین

إذا کان الرجل یصوم و یصلي ویضر الناس بیدہ ولسانہ فذکرہ بما فیہ لیس بغیبة وکذا لا إثم علیہ لو ذکر مساوئ أخیہ علی وجہ الاھتمام لا یکون غیبة، فتباح غیبة مجھول و متظاھر بقبیح ولمصاھرة ولسوء اعتقاد تحذیرًا منہ ولشکوی ظلامتہ۔ (در مختار: ۹/۵۸٦، باب الاستبراء)

بِمَا يَكْرَهُ الْإِنْسَانُ يَحْرُمُ ذِكْرُهُ ... سِوَى عَشْرَةٍ حَلَّتْ أَتَتْ تِلْوَ وَاحِدِ
تَظَلَّمْ وَشِرْ وَاجْرَحْ وَبَيِّنْ مُجَاهِرًا ... بِفِسْقٍ وَمَجْهُولًا وَغِشًّا لِقَاصِدِ
وَعَرِّفْ كَذَا اسْتَفْتِ اسْتَعِنْ عِنْدَ زَاجِرٍ ... كَذَاكَ اهْتَمِمْ حَذِّرْ فُجُورَ مُعَانِدِ۔ (شامی : ٦/ ٤٠٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
8 شوال المکرم 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں