اتوار، 28 اکتوبر، 2018

تعلیق طلاق کا حکم

*تعلیق طلاق کا حکم*

سوال :

ایک دوست کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوگیا، جھگڑے کے دوران شوہر نے بیوی سے کہا کہ گھر سے تیرے ساتھ اب نہیں نکلوں گا اگر نکلوں تو تجھے طلاق ہو۔ کیا کہتے ہیں مفتی صاحب کے طلاق واقع ہوجائے گی اگر گھر سے باہر نکلے تو؟ اور اس سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ مزمل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ اگر تو نے فلاں کام کیا تو تجھے طلاق، شریعت کی اصطلاح میں اسے تعلیق طلاق کہتے ہیں، لہٰذا جب وہ شرط پائی تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ صورت مسئولہ میں اگر وہ شخص اپنی بیوی کے ساتھ باہر نکلے تو اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی۔

اور ایک طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے اندر رجوع کرسکتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں میں کہہ دے کہ میں رجوع کرتا ہوں، یا تنہائی میں میاں بیوی والا عمل کرلے۔ اور اگر عدت کے اندر (تین ماہواری گذرنے سے پہلے) رجوع نہیں کیا تو عدت کی مدت گذر جانے کے بعد وہ ایک طلاق بائن بن جائے گی۔

ایک طلاق بائن کی صورت میں بیوی اسکے شوہر نکاح سے نکل جائے گی، اب وہ عدت گزار کر کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور چاہے تو نئے مہر کے ساتھ اسی شوہر سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اس شرط کو ختم کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

وتنحل الیمین بعد وجود الشرط مطلقا لکن إن وجد فی الملک طلقت۔ (الدر المختار : ۳/۳۵۵) 

وإن وجد الشرط فی الملک طلقت۔ (کنز الدقائق مکتبہ مجتبائی دہلی ص: ۱۲۷)

عن سماکؓ قال: سمعت عکرمۃؓ یقول: الطلاق مرتان: فإمساک بمعروف، أو تسریح بإحسان، قال: إذا طلق الرجل امرأتہ واحدۃ فإن شاء نکحہا، وإذا طلقہا ثنتین فإن شاء نکحہا، فإذا طلقہا ثلاثاً فلا تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، ما قالوا في الطلاق مرتان مؤسسۃ علوم القرآن بیروت۱۰/۱۹۷، رقم:۱۹۵۶۴)

أو تزوج ثانیاً في العدۃ۔ وفي الشامیۃ: فیما لو طلقہا بائناً بعد الدخول، ثم تزوجہا في العدۃ وجب کمال المہر الثانی بدون الخلوۃ والدخول۔ (در مختار مع الشامي، باب المہر، ۴/۲۳۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 شوال المکرم 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں