سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید نے کسی کام پر خدا کی قسم کھائی اور وہ کام نہیں کرسکا، تو شریعت مطھرہ نے قسم توڑ دینے کا کیا کفارہ متعین کیا ہے؟ اسی طرح بار بار قسم کھا کر کسی بھی کام کے متعلق کہے کہ کل کردوں گا تو ایسی قسم کھانا کیسا ہے؟ براہ کرم مدلل مکمل جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں زید کی قسم یمین منعقدہ ہے، لہٰذا اس کے خلاف کرنے کی صورت میں یعنی کسی کام کے کرنے کی قسم کھا کر اسے نہ کرنے کی وجہ سے اس پر قسم توڑ دینے کا کفارہ لازم ہوگا۔
قسم کھانا اگرچہ مشروع عمل ہے لیکن ہر بات پر قسم کھانا مستحسن نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام بن جاتا ہے، اور وہ ہر بات پر قسم کھائے بغیر نہیں رہ سکتے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ
ترجمہ : کہ تو کسی ایسے شخص کا بھی کہا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا ہے۔ (سورۃ القلم، آیت : 10)
اس سے معلوم ہوا کہ کثرت سے اور بغیر ضرورت کے قسم کھانا مکروہ ہے، اس لیے کہ دوران گفتگو زیادہ قسمیں کھانا انسان کو جھوٹ کی طرف لے جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کے دل سے قسم کی عظمت و ہیبت جاتی رہتی ہے اور پھر اس کا انسان کی شخصیت پر بھی کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا، اور وہ خود بھی لوگوں کی نظر میں بے وقعت ہوجاتا ہے۔ اور قسم کھا کر توڑ دینا سخت گناہ کی بات ہے، جس کی وجہ سے آدمی پر کفارہ لازم ہوتا ہے۔
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے یا ان کو پہننے کے لئے ایک ایک جوڑا دے، یا ایک غلام آزاد کرے اور اگر دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانے یا ایک ایک جوڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو مسلسل تین دن روزے رکھے۔ اگر الگ الگ کرکے تین روزے رکھے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزہ رکھنا ہوگا۔
قسم کے کفارہ میں دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا ہے، البتہ گھر میں کھانے کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں دس مسکینوں کو دو وقت کے کھانے کی قیمت ادا کرنے کی شرعاً اجازت ہے، اسی کے ساتھ اس کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ مالی کفارہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوئے روزہ رکھ کر کفارہ ادا کرنا جائز نہیں ہے۔
کفارہ ادا کرنے کی آسان شکل یہ ہے کہ الگ الگ دس مسکینوں کو دونوں وقتوں کے کھانے کا پیسہ دیدیا جائے اور اللہ تعالٰی کو راضی کرنے کے لیے کثرت سے ذکر و استغفار کیا جائے اور اللہ تعالٰی سے مغفرت کی امید بھی رکھی جائے۔
قال اللہ تعالیٰ : فَکَفَّارَتُہُ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ۔ (سورہ مائدہ، آیت : ۸۹)
وإن شاء أطعم عشرۃ مساکین کالإطعام فی کفارۃ الظہار۔ (ہدایۃ، الأیمان، باب ما یکون یمینا و مالایکون یمینا، ۲/۴۸۱)
ولو غدی مسکینا و أعطاہ قیمۃ العشاء أجزأہ و کذا إذا فعلہ فی عشرۃ مساکین۔ (شامی، کتا ب الأیمان، مطلب : کفارۃ الیمین، ۵/۵۰۳)
وإن عجز عنہا کلہا وقت الأداء صام ثلاثۃ أیام ولاء۔ (در مختار مع الشامی : ۵/۵۰۵)
أو إطعام عشرۃ مساکین، قال فی الشامیۃ: وفی الإطعام إما التملیک أو الإباحۃ فیعشیہم ویغدیہم (إلی قولہ) وإذا غدی مسکینا وعشی غیرہ عشرۃ أیام لم یجزہ لأنہ فرق طعام العشرۃ علی عشرین کما إذا فرق حصۃ المسکین علی مسکینین (وقولہ تحقیقا أو تقدیراً) حتی لو أعطی مسکینا واحدا فی عشرۃ أیام کل یوم نصف صاع یجوز۔ (شامی : ۵/۵۰۳)
ویجوز دفع القیمۃ … ولو غداہم و عشاہم فی یوم واحد أو عشاہم فی یوم آخر أو غداہم فی یومین أو غداہم و أعطاہم قیمۃ عشائہم الخ۔ (تاتارخانیۃ ۶/۳۰۲-۳۰۳، رقم: ۹۴۳۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 رجب المرجب 1439
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں