*عمرہ پیکج کی ایڈوانس بکنگ کا شرعی حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ بعض عمرہ ٹور والے سال دوسال قبل پورے پیسہ لے کر(جو بروقت جانے سے تقریباً آدھا ہوتا ہے) بکنگ کرتے ہیں، اور اس پیسہ کو ٹکٹ، ویزا اور دوسری چیز میں انویسٹ کرتے ہیں، اور اس سے حاصل کردہ منافع سے عمرہ کراتے ہیں،
دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطھرہ نے بیع خرید و فروخت کی متعدد شکلیں اور صورتیں بیان فرمائی ہیں، جن میں سے ایک صورت بیعِ سلم بھی ہے۔
بیع سلم یہ ہے کہ قیمت فی الحال دے دی جائے، مبیع (چیز) ادھار ہو، یہ تجارت سات آٹھ شرطوں کے ساتھ جائز ہے، چونکہ اس بیع میں قیمت فورًا سپرد کردی جاتی ہے اس لیے سلم کہلاتی ہے، اسے بیع سلف یعنی ادھار کی بیع بھی کہتے ہیں کہ مال مبیع اس میں ادھار ہوتا ہے۔
بیعِ سلم کا ثبوت قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے بھی ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
یأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ.
(سورۃ البقرۃ : آیت، ۲۸۲)
بیع سلم میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
(۱) جنس معلوم ہو (۲) نوع معلوم ہو (۳) صفت معلوم ہو (۴) قدر اور اندازہ معلوم ہو (۵) مدت معلوم ہو (۶) راس المال معلوم ہو (۷) مطلوبہ چیز دینے کا مکان معلوم ہو (۸) جدائی سے قبل راس المال پر قبضہ ہو۔
صورت مسئولہ میں ٹور والے مجلس عقد میں جب کسی عازمِ عمرہ سے کسی مخصوص رقم پر (خواہ وہ رقم کتنی بھی ہو) معاملہ طے کرلیتے ہیں، اور عازمِ عمرہ کو ٹور سے متعلق تمام تفصیلات (روانگی کا مہینہ، مدت قیام، طعام کی خصوصیات، لانڈری، زیارت اور قیام کی جگہ وغیرہ) سے مطلع کردیتے ہیں تو یہ معاملہ بیعِ سلم میں داخل ہوکر جائز اور درست ہوجاتا ہے، اور ٹور والے اس رقم کے مالک بن جاتے ہیں، لہٰذا وہ اسے کہیں بھی خرچ کریں، اس سے نفع کمائیں یا نقصان اٹھائیں اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے، ان کے لیے بہر صورت معاہدہ کے مطابق عازمِ عمرہ کو عمرہ کرانا ضروری ہوگا۔
قال اللّٰہ تعالٰی : یا أیہا الذین اٰمنوا إذا تداینتم بدین إلی أجل مسمًّی فاکتبوہ ولیکتب بینکم کاتب بالعدل۔ (سورۃ البقرۃ، آیت :۲۸۲)
عن عمرو بن عوف المزني عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ أن رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الصلح جائز بین المسلمین إلا صلحًا حرّم حلالاً أو أحلّ حرامًا، والمسلمون علی شروطہم إلا شرطا حرم حلالاً أو أحل حرامًا۔ (سنن الترمذي، أبواب الأحکام / باب ما ذکر عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الصلح بین الناس ۱؍۲۵۱)
لما قال العلامۃ الحصکفیؒ: السلم ھو۔۔۔۔۔شرعًا بیع آجل وھو السلم فیہ بعاجلٍ وھو راس المال۔ (الدرالمختارعلی صدر ردالمحتار: ۵؍۲۰۹، باب السلم)
قال العلامۃ المرغینانی: ولا یصح السلم عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ الا بسبع شرائط جنس معلوم… ونوع معلوم… وصفۃ معلومۃ… ومقدار معلوم… واجل معلوم… ومعرفۃ مقدار رأس المال… وتسمیۃ المکان الذی یوفیہ فیہ اذا کان لہ حمل ومؤنۃ… ولا یصح السلم حتی یقبض رأس المال قبل ان یفارقہ فیہ۔ (ہدایۃ ۳/۹۵،۹۶، باب السلم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
*کتبہ* : *محمد عامر عثمانی ملی*
18 شوال المکرم 1439
*نوٹ :* *واضح ہوکہ یہ حکم جواز اس نفس مسئلہ سے متعلق ہے جو سوال میں مذکور ہے، باقی ٹور والوں کی دیانت یا خیانت اور ایفائے عہد یا بدعہدی وغیرہ کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں، عازمین حج وعمرہ ان معاملات کی ازخود تحقیق کرلیں۔*
*واللہ اعلم*
*الجواب صحيح والمجيب مصيب*
*أحقر مسعود اختر قاسمی غفراللہ لہ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں