*بڑا قبرستان مسجد سے متعلق تنازعہ پر ایک فتوی*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
1) قبرستان کے لئے زمین خریدتے وقت ایک حصہ مسجد کے لئے متعین کردیا گیا تھا اور وہاں پر تدفین بھی نہیں ہوئی تھی تو ایسی جگہ مسجد اور جنازہ ہال بنانا اور اس میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اور اگر اس جگہ تدفین ہوئی تھی تب کیا حکم ہوگا؟
2) مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت وہاں موجود قبریں رکاوٹ کیوں نہیں بنیں؟
3) کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے بھی مومن اور مؤحدین موجود تھے؟
4) مسجد نبوی کی جگہ پر جو قبریں تھیں کیا وہ مشرکین کی قبریں تھیں؟
5) جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دے کر لوگوں میں فتنہ و فساد پھیلانے والوں کے متعلق شریعت کیا کہتی ہے؟ براہ کرم تمام سوالات کے مفصل مدلل جوابات ارسال فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبرستان کے لئے زمین خریدتے وقت جب مسجد اور جنازہ ہال کے لئے جگہ متعین کردی گئی تھی، اور وہاں پر تدفین بھی نہیں ہوئی تھی تو اس جگہ مسجد تعمیر کرنا بلاتردد جائز اور درست ہے، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور اگر اس جگہ تدفین ہوئی ہو اور اس پر عرصہ گذر گیا ہو اور اب اس بات کا یقین یاگمانِ غالب ہوکہ اس جگہ مدفون لوگوں کے جسم بوسیدہ ہوکر مٹی ہوچکے ہیں تو اس صورت میں بھی اس جگہ مسجد اور جنازہ ہال تعمیر کرنے کی اجازت ہے۔ ہر دو صورت میں ایسی مسجد اور جنازہ ہال میں نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہے۔ فقہ حنفی کی انتہائی معتبر کتاب فتاوی شامی میں یہ مسئلہ موجود ہے۔ (١)
2) مسجد نبوی کی تعمیر میں قبریں رکاوٹ، اس وجہ سے نہیں بنیں کہ وہ مشرکین کی قبریں تھیں، اور اسلام میں غیرمسلموں کی لاش کو وہ احترام حاصل نہیں جو ایک مسلمان میت کے لئے ہے۔ چنانچہ جنگ ِبدر میں ۲۴/مشرکین کی لاشوں کو گھسیٹ کر ایک گندے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ (پھرمٹی اور پتھروں سے کنوئیں کو پُرکردیا گیا)۔ (صحیح بخاری:۳۹۷۶،مسلم:۸/ ۱۶۴،احمد۳/۱۰۴)
3) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے بھی مؤمنین مؤحدین دنیا میں موجود تھے۔ مثلاً حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے رشتہ دار ورقہ ابن نوفل وغیرہ۔
4) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی کا احاطہٰ دراصل بنی نجار کا باغ تھا اور اس میں کچھ کھیتی، کھجوریں اور مشرکین کی قبریں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے اس کی قیمت لے لو۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم اس کی قیمت نہیں لیں گے۔ چنانچہ کھجوریں کاٹ دی گئیں، کھیتی کو برابر کر دیا گیا اور مشرکین کی قبروں کو اکھیڑ دیا گیا۔ (2)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی جس زمین پر تعمیر ہوئی تھی وہاں مشرکین کی قبریں تھی، اور مسلمانوں کی قبروں پر تعمیر کب ہوگی؟ اوپر مسئلہ بتادیا گیاہے۔
5) حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کیا میں تمہیں سب سے بڑے بڑے گناہ نہ بتلاوں ؟ یہ الفاظ آپ نے تین بار دہرائے ، ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلایئے، آپ نے فرمایا : اللہ تعالی کا شریک ٹھہرانا ، والدین کی نافرمانی کرنا، (ابھی تک) آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے پھر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا : سنو! جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا ، پھر آپ یہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کہ کاش آپ خاموش ہوجاتے۔ (صحیح البخاري : 2654/صحيح مسلم : 87)
ذکر کردہ حدیث شریف میں تیسرا اور چوتھا کبیرہ گناہ، جھوٹ اور جھوٹی گواہی دینا بیان ہوا ہے، ان دونوں کاموں کی قباحت و خطرناکی کے پیش نظر ان پر تنبیہ کرنے کے لئے آپ ٹیک چھوڑ کر سیدھے بیٹھ گئے اور بار بار، زور دار انداز میں فرمایا کہ جھوٹی بات کرنا اور جھوٹی گواہی دینا بھی بڑے بڑے گناہوں میں داخل ہے، لہٰذا جھوٹ بول کر لوگوں میں فتنہ و فساد پھیلانا گناہ کبیرہ ہے، ایسے لوگوں کو اس سنگین گناہ سے باز آجانا چاہیے، ورنہ بروز حشر ان کی سخت گرفت یقینی ہے۔
وَقَالَ الزَّيْلَعِيُّ: وَلَوْ بَلِيَ الْمَيِّتُ وَصَارَ تُرَابًا جَازَ دَفْنُ غَيْرِهِ فِي قَبْرِهِ وَزَرْعُهُ وَالْبِنَاءُ عَلَيْهِ۔ (شامی : ٢/٢٣٣)
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَأَمَرَ بِبِنَائِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي فَقَالُوا لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَی اللَّهِ فَأَمَرَ بِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ ثُمَّ بِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ۔ (بخاری)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 جنوری 2017
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںبھت اچھے انداز میں کہا آپ نے لیکن لوگ بھی اپنے اپنے انداز سے پڑھ لیا کریں گے..
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںMashaallah bhut bhitrin andaz mi jwab diye
جواب دیںحذف کریں