*دوسروں کے ساتھ خود کی اصلاح بھی ضروری ہے*
✍ محمد عامر عثمانی ملی
قارئین کرام! سوشل میڈیا کے اس دور میں جبکہ ہر کسی کو اظہارِ رائے کی آزادی ہے، اور اپنی سوچ اور فکر کو دوسروں تک پہنچانا بھی بالکل آسان ہوگیا ہے، تو ہر کوئی اس میدان میں قسمت آزمائی کررہا ہے، کوئی سیاست پر لکھ رہا ہے تو کوئی معیشت اور طِب پر رقم طراز ہے ۔
دینی اصلاحی تحریریں بھی وجود میں آرہی ہیں، لیکن ایسی تحریروں کے محررین کو اسی کے ساتھ خود کی اصلاح کی بھی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ مشاہدہ کی بات ہے کہ بعض محررین کی زندگیاں فرائض و واجبات کے ترک اور کبیرہ گناہوں میں گذر رہی ہیں، لیکن وہ سوشل میڈیا پر بڑے مصلحِ امت بنے ہوئے ہیں، تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ لکھنا چھوڑ دیں، بلکہ انہیں ایسے مواقع پر قرآن وحدیث کے احکامات کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے ۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ۔ (بقرہ : 44)
ترجمہ : کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو ! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں ۔
ذکر کردہ آیت میں خطاب اگرچہ علمائے یہود سے ہے اور انہیں کو ملامت کی جارہی ہے کیونکہ یہودی علماء اپنے مسلمان رشتہ داروں کو کہا کرتے تھے کہ تم جس شخص پر ایمان لائے ہو، وہ بلاشبہ سچا اور آخری نبی ہے، اس کا دامن نہ چھوڑنا ۔ مگر خود اس پر ایمان نہیں لاتے تھے ۔ وجہ یہ تھی کہ ایمان لانے سے ان کے مالی فوائد ضائع ہوتے تھے ان کے اسی رویہ کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو تلقین کرتے ہیں اور خود کو فراموش کرتے ہیں ۔ لیکن معنی کے اعتبار سے یہ ہر اس شخص کی مذمت ہے جو دوسروں کو تو نیکی اور بھلائی کی ترغیب دے مگر خود عمل نہ کرے دوسروں کو خدا سے ڈرائے مگر خود نہ ڈرے ایسے شٰخص کے بارے میں احادیث میں بڑی خوفناک وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہو جن کی زبانیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں، میں نے یہ دیکھ کر پوچھا کہ جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ آپ کی امت کے واعظ وخطیب ہیں جو ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر خود عمل نہیں کرتے ۔ (ترمذی)
ابن عساکر نے ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بعض جنتی بعض دوخیوں کو آگ میں دیکھ کر پوچھیں گے کہ تم آگ میں کیونکر پہنچ گئے ؟
حالانکہ ہم تو بخدا انہی نیک اعمال کی بدولت جنت میں داخل ہوئے ہیں جو ہم نے تم سے سیکھے تھے اہل دوزخ کہیں گے ہم زبان سے کہتے ضرور تھے لیکن خود عمل نہیں کرتے تھے ۔ (ابن کثیر/معارف القرآن)
چنانچہ ایسےمصلحینِ امت سے مخلصانہ درخواست ہے کہ خود کی اصلاح کی بھی فکر کریں، اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ رات کو سونے سے پہلے اپنے دن بھر کے اعمال کا جائزہ لیں، اور دیکھیں کہ آج کتنے فرائض و واجبات پر عمل ہوا اور کتنے اعمال چھوٹ گئے؟ گناہوں میں بدنظری، غیبت، ماں باپ کی نافرمانی، کسی کی دل آزاری، جھوٹ، بہتان، وغیرہ ہوئے یا نہیں ؟ اگر خدانخواستہ کسی گناہ میں مبتلا ہیں تو دوسرے دن ان اعمال کو ترک کرنے کی کوشش کریں، کوشش کے باوجود اگر آپ گناہوں کو ترک نہیں کرپارہے ہیں تو کسی صاحبِ دل سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کرلیں، اگر آپ نے اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش کی تو یقیناً آپ کی تحریریں زیادہ مؤثر ہوں گی اور آپ کی ذات امت کے لیے زیادہ نفع بخش ثابت ہوگی ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اصلاحِ ناس کے ساتھ اصلاحِ نفس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں