*فرض نمازوں کے مستحب اوقات*
سوال :
مفتی صاحب احناف کے نزدیک ہر نماز تاخیر پڑھنا افضل ہے علاوہ مغرب کے،
سوال یہ ہے کہ تاخیر کب تک؟ خاص کر کے عشاء کے متعلق بتائیں ۔ جزاك اللهُ
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے یہاں مطلقاً یہ حکم نہیں ہے کہ تمام نمازیں تاخیر سے پڑھنا بہتر ہے، بلکہ اس میں تفصیل ہے، اور تاخیر کی حدود بھی ہیں، تفصیلات ملاحظہ فرمائیں :
فجر : فجرکی نماز کا وقت صبح صادق سے طلوع آفتاب تک رہتا ہے ۔
فجر کی نماز اِسفار میں کرکے پڑھنا مستحب ہے، البتہ اتنی تاخیر نہ ہو کہ نماز فاسد ہونے کی صورت میں مسنون طریقے پر نماز دوہرانے کی گنجائش نہ رہے ۔ لہٰذا طلوع آفتاب سے کم ازکم ٢٥/ ٣٠ منٹ پہلے فجر کی جماعت کا وقت ہونا چاہیے ۔
أول وقت الفجر إذا طلع الفجر الثانی وہو المعترض فی الأفق وآخر وقتہا ما لم تطلع الشمس ۔ (ہدایۃ ۱؍۸۰، مکتبہ بلال دیوبند ۱؍۷۶-۷۷)
ویستحب الإسفار بالفجر لقولہٖ علیہ الصلوۃ والسلام أسفروا بالفجر فإنہ أعظم للأجر۔ (ترمذی شریف ۱؍۴۰، ہدایہ ۱؍۸۲، مکتبہ بلال دیوبند ۱؍۷۹)
ظہر : زوالِ آفتاب کے بعد سے سایۂ اصلی دو مثل ہونے تک ظہر کا وقت باقی رہتا ہے۔ گرمی کے زمانے میں ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے اور سردی میں اول وقت میں ادا کرنا مستحب ہے ۔
وأول وقت الظہر إذا زالت الشمس وآخر وقتہا عند أبی حنیفۃؒ إذا صار ظل کل شئ مثلیہ سوی فئ الزوال۔ (ہدایہ ۱؍۸۱، مکتبہ بلال دیوبند ۱؍۷۷، درمختار زکریا ۲؍۱۴، درمختار بیروت ۲؍۱۵)
ویستحب الإبراد بالظہر فی الصیف وتقدیمہ فی الشتاء۔ (ہدایہ ۱؍۸۲، مکتبہ بلال دیوبند ۱؍۸۰، درمختار زکریا ۲؍۲۴، درمختار ۲؍۲۳)
جمعہ : جمعہ کا اصل وقت بھی ظہر کے وقت کی طرح ہے۔ البتہ جمعہ کی نماز گرمی یا سردی ہر زمانہ میں اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے ۔
وجمعۃ کظہر الخ۔ (درمختار زکریا ۲؍۲۵، درمختار بیروت ۲؍۲۴)
وقال الجمہورلیس بمشروع (أی الإبراد) لأنہا تقام بجمع عظیم فتأخیرہا مفض إلی الحرج ولا کذلک الظہر۔ (شامی زکریا۲؍۲۵، شامی بیروت ۲؍۲۴)
عصر : ظہر کا وقت ختم ہوتے ہی عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور غروبِ آفتاب تک باقی رہتا ہے ۔
عصر کا مستحب وقت سورج میں تغیر آنے سے پہلے تک رہتا ہے، خواہ گرمی کا موسم ہو یا سردی کا، البتہ سورج میں تغیر آنے کے بعد عصر کا مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے ۔
أول وقت العصر إذا خرج وقت الظہر علی القولین وآخر وقتہا ما لم تغرب الشمس۔ (ہدایہ ۲؍۸۱، مکتبہ بلال دیوبند ۱؍۷۸، درمختار زکریا ۲؍۱۶، درمختار بیروت ۲؍۱۶)
ویستحب تاخیر العصر ما لم تتغیر الشمس فی الصیف والشتاء۔ (ہدایہ ۱؍۸۳، مکتبہ بلال دیوبند ۱؍۷۸، درمختار زکریا ۲؍۲۶، درمختار بیروت ۲؍۲۴)
مغرب : غروب آفتاب سے لے کر افق پر سے سفید روشنی کے غائب ہونے تک مغرب کا وقت باقی رہتا ہے۔
مغرب کی نماز اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے بلاعذر تاخیر کرنا مکروہ ہے ۔
وأول وقت المغرب إذا غربت الشمس وآخر وقتہا ما لم یغب الشفق ثم الشفق ہو البیاض الذی فی الأفق بعد الحمرۃ۔ (ہدایہ ۱؍۸۱، مکتبہ بلال دیوبند ۱؍۷۸، درمختار زکریا ۲؍۱۷، درمختار بیروت ۲؍۱۷)
ویستحب تعجیل المغرب لأن تأخیرہا مکروہ۔ (ہدایہ ۱؍۸۳، مکتبہ بلال دیوبند ۱؍۸۰، درمختار زکریا ۲؍۲۷)
عشاء : عشاء کا وقت افق سفید سے روشنی کے غائب ہونے سے شروع ہوکرصبح صادق تک رہتا ہے ۔
نماز عشاء کو تہائی رات سے پہلے تک مؤخر کرنا مستحب ہے، اور آدھی رات تک پڑھنا بلا کراہت جائز ہے، اور آدھی رات سے صبح صادق تک بلا عذر تاخیر کرنا مکروہ ہے ۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن للصلاۃ أولاً وآخراً - وفیہ - وإن أول وقت العشاء الآخرۃ حین یغیب الأفق، وإن آخر وقتہا حین ینتصف اللیل۔ (سنن الترمذي، کتاب الصلاۃ/ باب ما جاء في مواقیت الصلاۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۱؍۳۹ رقم: ۱۵۱)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لولا أن أشق علی أمتي لأمرتہم أن یؤخروا العشاء إلی ثلث اللیل أو نصفہ۔ (سنن الترمذي، کتاب الصلاۃ / باب ما جاء في تاخیر العشاء الآخرۃ ۱؍۴۲ رقم: ۱۶۷)
ابتداء وقت العشاء والوتر منہ أي من غروب الشفق إلی قبیل طلوع الصبح الصادق لإجماع السلف۔ (مراقي الفلاح ۹۵، درمختار مع الشامي ۲؍۱۸ زکریا، ۲؍۱۸-۱۷ بیروت، ہدایۃ ۱؍۸۲)
ویستحب تاخیر العشاء إلی ما قبل ثلث اللیل و إلی نصف الأخیر مکروہ والتاخیر إلی نصف اللیل مباح۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۲۵ بیروت، ۲؍۲۶ زکریا، ہدایۃ ۱؍۸۳)
إن التاخیر إلی نصف اللیل لیس بمستحب، وقالوا: إنہ مباح وإلی ما بعدہ مکروہ۔ (البحر الرائق ۱؍۲۴۸، شامي ۱؍۳۶۸ کراچی)
مستفاد : کتاب المسائل 1/238-241)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 صفر المظفر 1440
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں