*چند گھریلو مسائل اور ان کا حل*
سوال :
محترم مفتی صاحب ! برائے مہربانی ایک قضیہ کا حل بتا دیں. ماں باپ نے خون پسینے کی کمائی سے؛ سختیاں جھیل کر، اچھے دنوں کی آس میں لڑکے کو بڑی ڈگری دلائی. جب لڑکا کمانے لگا اور لاکھوں روپے کا مالک بن گیا، ماں باپ کو ہفتے کا ہزار دو ہزار دیتا ہے اسی میں لڑکے کی بیوی بچے کھاتے پیتے ہیں اور اگر ماں باپ چاہیں کہ لڑکا کیا اور کتنا کماتا ہے، پیسوں کا کیا کرتا ہے، ہمیں بتاے تو لڑکا کہتا ہے کہ تمہیں شرعی حیثیت سے پوچھنے کا کوئی حق نہیں ہےاور اگر کہیں کہ ہم نے تمہیں پڑھایا ہے تو کہتا ہے کہ وہ تو تمہارا فرض تھا اور لڑکے کی بیوی گھر کا کام بھی نہیں کرے گی کیونکہ اسلامی حساب سے اس پر ساس سسر اور دیگر لوگوں کا کام کرنا فرض نہیں اور اگر کہا جائے کہ ٹھیک ہے اگر ایسا ہے تو تم الگ ہوجاؤ تو اس پر بھی راضی نہیں (کیونکہ لڑکے کے بچوں کو دادی سنبھال لیتی ہےالگ رہنے میں بیوی پر بوجھ بڑھتا ہے) سوال یہ ہے ایسے میں کس شخص کو اسلامی حساب سے کیا کرنا چاہیے؟ واضح رہے کہ لڑکے کی ان باتوں سے ماں باپ کو بہت تکلیف ہوتی ہے.؟ دوسری طرف اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں نے کما کما کر ماں باپ کو دیدیا اور ان سے وہ خرچ ہو گیا اب ضرورت کے وقت وہ بالکل خالی ہاتھ رہ گئے اور ان کی ضروریات پوری نہ ہو سکیں ۔
(المستفتی : فضل الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آج کل ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو صرف اپنے حقوق کو پہچانتے ہیں، انھیں اس بات کا علم نہیں کہ دوسروں کے اُن پر کیا حقوق ہیں؟ یا وہ اسے جاننا ہی نہیں چاہتے، ایسے لوگ دوسروں کے حقوق سے بے خبر اور دوسروں کے حقوق کی پامالی کرتے ہوئے صرف اپنے حقوق کو حاصل کرنے اور اس کے مطالبہ میں مصروف ہوتے ہیں، چنانچہ اسی وجہ سے معاشرے کا توازن بگڑ رہا ہے اور اس کا امن و سکون راحت و آرام غارت ہورہا ہے۔
مسئولہ صورت بھی ایسی ہی ہے کہ اس میں بیٹا اور بہو کو اپنے حقوق تو اچھی طرح ازبر ہیں لیکن والدین کے ان پر کیا حقوق عائد ہوتے ہیں انھیں اس کی خبر نہیں ہے ۔
سوال میں مذکور تمام شقوں کے جوابات ترتیب وار دئیے جارہے ہیں ۔
1) صورت مسئولہ میں والدین چاہتے ہیں کہ لڑکا کیا اور کتنا کماتا ہے، پیسوں کا کیا کرتا ہے، ہمیں بتائے تو لڑکا کہتا ہے کہ تمہیں شرعی حیثیت سے پوچھنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔
جواب) شریعت مطھرہ کی طرف سے قطعاً اس کی ممانعت نہیں ہے کہ والدین اپنے بچوں کی آمد و خرچ کے متعلق ان سے پوچھ گچھ کریں، والدین کا مذکورہ مطالبہ بالکل جائز اور درست ہے، اور علماء و فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے کہ جائز کاموں میں والدین کی اطاعت واجب ہے ۔
لہٰذا بیٹے پر واجب ہے کہ والدین کے مطالبہ پر وہ انھیں اپنے آمد و خرچ کے متعلق بتائے ورنہ والدین کی نافرمانی کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا ۔
عن علي رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا طاعۃ في معصیۃ اللّٰہ، إنما الطاعۃ في المعروف۔ (صحیح مسلم / باب وجوب طاعۃ الأمراء في غیر معصیۃ وتحریمہا في معصیۃ ۲؍۱۲۵)
وأما إطاعتہما في غیر المعاصي فواجب بقدر ما أمکن۔، (أحکام القرآن للشیخ المفتی محمد شفیع : ۳/۲۶۸)
2) دوسرا سوال یہ ہے کہ لڑکے کی بیوی گھر کا کام بھی نہیں کرے گی کیونکہ اسلامی حساب سے اس پر ساس سسر اور دیگر لوگوں کا کام کرنا فرض نہیں ہے ۔
جواب) بلاشبہ بہو پر اپنے ساس سر اور دیگر لوگوں کی خدمت واجب نہیں ہے، لیکن شوہر کی وجہ سے عورت کے ساس سسر والدین کے حکم میں ہوتے ہیں، اور بہو بیٹی کے درجے میں ہوتی ہے، اس لیے عورت کو چاہیے کہ حسبِ ہمت وطاقت اپنے حقیقی ماں باپ اور شوہر کی طرح ساس سسر کی بھی خدمت کیا کرے، اس لئے کہ یہ بہو کا اخلاقی فریضہ و تقاضا ہے ۔
ذیل میں چند احادیث نقل کی جاتی ہیں جو کہ زیر بحث مسئلہ میں ان شاءاللہ عورتوں کو اپنی ساس سسر کی خدمت پر ابھارنے کا باعث بنیں گی ۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مومن آدمی اپنے اعلیٰ اخلاق سے سارے دن کے روزہ دار اور ساری رات کے تہجد گذار کا درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔ (ابوداؤد)
حضرت ابوالدرداء ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میزان اعمال میں حسن اخلاق سے زیادہ بھاری چیز کوئی نہیں۔ ( ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں ۔ (بخاری)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہے ۔ (ترمذی)
ذکر کردہ احادیث مبارکہ میں حسن سلوک اور خوش خلقی کی فضیلت بیان کی گئی ہیں، اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک آدمی کے بھلے ہونے کی علامت ہے ۔
عورت کے لئے اس کے شوہر اور حقیقی والدین کے بعد ساس سسر ہی اس کے حسن سلوک اور اچھے اخلاق کے سب سے زیادہ حقدار ہیں، لہٰذا ان کی خدمت کرنا حسن سلوک اور اعلی اخلاق کی علامت ہے، اور قوی امید ہے کہ یہ خدمت اس کے لئے نجات کا ذریعہ بن جائے ۔
ترغیبی باتوں کے بعد اصول بات بھی سمجھ لی جائے کہ کوئی بھی شریف النفس لڑکی قطعاً یہ نہیں چاہے گی کہ بڑھاپے کی حالت میں اس کے والدین اپنے ہاتھوں سے کام کریں اور ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہو، چنانچہ اگر یہ سوچ اپنے والدین کے متعلق ہوتو اپنے ساس سسر کے متعلق یہ سوچ کیوں نہیں بن سکتی؟ جب کہ انھیں بھی والدین کا درجہ دیا گیا ہے۔ عورت کو اس بات کا بھی خیال رہے کہ آج اگر وہ اپنے ساس سسر کی خدمت کرے گی تو اس کے بھائی کی بیوی اس کے والدین کی خدمت کرے گی، اس لئے کہ یہی دنیا کا قاعدہ ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے ۔
مذکورہ بالا تمام باتوں کو جان لینے کے بعد بھی اگر کوئی عورت اپنے ساس سسر کی قصداً خدمت نہ کرے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اسے بھی بڑھاپا آنے والا ہے ۔
والدین کی خدمت کی ذمہ داری اصلاً بیٹے کی ہے اگر وہ خود خدمت نہیں کرسکتا تو خادم و خادمہ کا انتظام کرے، ورنہ والدین کو تکلیف پہنچنے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا۔ اور اگر ساس بہو میں موافقت نہ ہوتو شوہر کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان کے درمیان کشیدگی کا سلسلہ طول نہ پکڑنے پائے، اس لئے اپنی بیوی کے لیے الگ رہائش کا انتظام کرلے، لیکن اس صورت میں بھی والدین کے نان و نفقہ کی ذمہ داری بیٹے پر ہی ہوگی بشرطیکہ والدین کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہو ۔
یہ بھی ملحوظ رہے کہ والدین پر خرچ کے معاملے میں اولاد کی استطاعت اعتبار ہوگا، مثلاً اگر اولاد لاکھوں کما رہی ہے تو والدین پر بھی اسی حساب سے خرچ کرے ایسا نہ ہو کہ بیوی بچوں پر امیروں کی طرح خرچ کرے اور والدین پر خرچ کرنے میں تنگدستی کا مظاہرہ کرے۔
ولو أراد أن یسکنہا مع ضرتہا أو مع أحمائہا کأمہ وأختہ وبنتہ فأبت فعلیہ أن یسکنہا في منزل منفرد؛ لأن إباءہا دلیل الأذی والضرر، ولأنہ محتاج إلی جماعہا ومعاشرتہا في أي وقت یتفق لا یمکن ذلک مع ثالث(وقولہ) ذکر الخصاف أن لہا أن تقول: لا أسکن مع والدیک وأقربائک في الدار فأفرد لي دارا۔ (شامي : ۳/ ۶۰۱)
3) دوسری طرف اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں نے کما کما کر ماں باپ کو دیدیا اور ان سے وہ خرچ ہوگیا اب ضرورت کے وقت وہ بالکل خالی ہاتھ رہ گئے اور ان کی ضروریات پوری نہ ہو سکیں ۔
جواب) اگر اولاد والد کے لگائے ہوئے کاروبار میں کام کرتے ہیں تو اس کاروبار کی کمائی والد کی ہی ہے، اس میں والد جیسے چاہیں تصرف کرسکتے ہیں، اس مال میں اولاد کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لیکن اگر اولاد الگ کاروبار کرتے ہیں یا کہیں ملازمت وغیرہ کرتے ہیں تو ان کی کمائی میں والدین کو تصرف کا اختیار نہیں ہے، یہ کمائی اولاد کی ذاتی ملکیت ہے، اس لئے ایسے لوگوں پر ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی پوری کمائی والدین کو لاکر دیں، البتہ والدین آمد و خرچ کے متعلق سوال کریں تو اس کا بتانا ضروری ہے جیسا کہ سوال نمبر ایک میں گذرا ہے ۔
اخیر میں اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے اوپر عائد ہونے والے حقوق کو جان کر اسے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کی خوب خوب خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، گھریلو تنازعات سے ہم سب کی حفاظت فرمائے. آمین یا الہ العلمین
الرجل یأکل من مال ولدہ أي إذا احتاج إلیہ وفي ہامشہ یجوز عند أحمد مطلقًا․․․ وخالفہ الأئمة الثلثة وقالوا لا یجوز إلا أن یحتاج فیأخذ بقدر حاجتہ۔ (بذ ل المجہود : ٤/۲۹۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
18 رجب المرجب 1439
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں