*سجدہ سہو واجب ہونے کے اسباب اور اس کا طریقہ*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ سجدہ سہو کے واجب ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ اور سجدہ سہو کا طریقہ کیا ہے؟
احناف کے نزدیک راجح قول کیا ہے؟
مدلل بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز میں سجدہ سہو واجب ہونے کے درج ذیل اسباب ہیں، ان میں سے جب بھی کوئی سبب پایا جائے تو سجدہ سہو واجب ہوجائے گا۔
1) کسی فرض یا واجب عمل کو اپنی اصل جگہ سے مقدم کردینا : مثلاً قرأت سے پہلے رکوع کرلیا یا سورہ فاتحہ سے پہلے سورت ملالی۔
2) کسی فرض یا واجب عمل کو اپنی اصل جگہ سے مؤخر کر دینا : مثلاً پہلی رکعت میں ایک سجدہ بھول گیا اور دوسری رکعت میں یاد آنے پر تین سجدے کرلئے، یا سورہ فاتحہ سورۃ کے بعد پڑھ لی۔
3) کسی فرض یا واجب کی تکرار کردینا : مثلاً رکوع دوبارہ کرلیا، یا ایک رکعت میں تین سجدے کرلئے۔
4) کسی واجب کی صفت کو بدل دینا : مثلاً جہری نماز میں امام نے آہستہ قرأت کردی یا سری نماز میں زور سے قرأت کی۔
5) کسی واجب کو ترک کردینا : مثلاً تشہد نہیں پڑھا، یا سورہ فاتحہ چھوڑ دی۔
(حلبی کبیر ۴۵۵-ــ۴۵۶، شامی بیروت ۲؍۴۷۴-۴۷۵، شامی زکریا ۲؍۵۴۳- ۵۴۴)
حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک قعدۂ اخیرہ میں سجدۂ سہو کے سلام سے پہلے ہی درود شریف اور دعائیں پڑھی جائیں گی، اور سجدۂ سہو کے بعد جو تشہد پڑھا جاتا ہے اس میں درود شریف اور دعائیں نہیں پڑھی جائیں گی، بلکہ تشہد کے فوراً بعد سلام پھیر دیا جائے گا۔ اس کے برخلاف حضرت امام محمدؒ کا قول یہ ہے کہ سجدۂ سہو کے سلام سے پہلے درود شریف اور دعائیں نہیں پڑھی جائیں گی، بلکہ سہو کے بعد والے تشہد میں انہیں پڑھا جائے گا اور ان دونوں اقوال میں سے متأخرین بالخصوص امام کرخیؒ نے امام محمدؒ کے قول کو ترجیح دی ہے، اور آج کل اسی قول پر فتوی ہے۔ اس مسئلہ میں ایک تیسری رائے یہ بھی ہے کہ دونوں قعدوں میں درود پڑھا جائے، اس کو بعض فقہاء نے احوط قرار دیا ہے۔
ومن علیہ السہو یصلي علی النبي علیہ الصلاۃ والسلام في القعدۃ الأولی في قول أبي حنیفۃ وأبي یوسفؒ وفي قول محمد في القعدۃ الثانیۃ، والأحوط أن یصلي في قعدتین۔ (قاضي خاں علی ہامش الھندیۃ ۱؍۱۲۱)
ویأتي بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم والدعاء في القعود الأخیرۃ في المختار، وقیل فیہما احتیاطا۔ (الدر مع الدر ۲؍۵۴۲ زکریا)
ویأتی بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم والدعاء في قعدۃ السہو وہو الصحیح۔ (ہدایۃ ۱؍۳۳۱ المکتبۃ البشری کراچی)
ثم اختلفو في الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم والدعوات أنہا في قعدۃ الصلاۃ أم في قعدۃ سجدتي السہو، ذکر الکرخي في مختصرہ أنہا في قعدۃ سجدتي السہو، وفي الحجۃ وہو الصحیح۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۳۸۶ رقم: ۲۷۴۹ زکریا)
وکیفیتہ أن یکبر بعد سلامہ الأول یخر ساجد أو یسبح في سجودہ ثم یفعل ثانیا کذلک ثم یتشہد ثانیا ثم یسلم، کذا في المحیط۔ ویأتي بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم والدعاء في قعدۃ السہو وہو الصحیح۔ (الفتاویٰ الھندیۃ ۱؍۱۲۵)
اختلفو في الصلوۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وفي الدعوات أنہا في قعدۃ الصلاۃ أم في سجدتي السہو ذکر أبو جعفر الاستروشي أن ذلک قبل سلام السہو، وذکر الکرخي في مختصرہ أنہا في قعدتي سجدۃ السہو؛ لأنہا ہي القعدۃ الأخیرۃ، واختار فخر الإسلام ما اختارہ المصنف۔ (البنایۃ ۲؍۷۷۹، وہکذا في العنایۃ مع الفتح ۱؍۵۱۸ زکریا)
مستفاد : کتاب المسائل، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 رمضان المبارک 1439
السلام علیکم و رحمتہ اللّه
جواب دیںحذف کریںاور اگر تشہد اور درودشریف پڑھ کے بغیر سلام کے دوں سجدہ، کر کے سلام فیر دیا تو کیا سجدہ سہو ہوجائے گا جواب کا انتظار رہے۔ گا شکریہ
مفتی صاحب،
جواب دیںحذف کریںزید مغرب کی نماز میں تیسری رکعت میں شامل ہوا، امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دوسری سورہ ملائ پھر قعدہ کیا، اس کے بعد دوسر رکعت سورہ فاتحہ کے بعد رکوع کرلیا. بعد میں یاد آیا کہ سورۃ نہیں ملائ اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلی، کیا نماز ہوجائے گی؟ جا پھر اعادہ کرننا ہوگی. جواب عنایت فرمائیں.
فرض کی پہلی دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ کا ملانا واجب ہے، لہٰذا اس کے ترک سے سجدہ سہو واجب ہوگا، سجدۂ سہو کرلینے سے نماز درست ہوجائے گی۔
حذف کریںجزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
حذف کریں