ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کا حکم

*مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ عورتیں کثرت اولاد سے بچنے کے لیے یا دو بچوں کے درمیان فاصلہ رکھنے کے لیے اپنے رحم میں کوپرٹی لگواتی ہیں جس سے استقرار نہیں ہوتا اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
نیز مانع حمل ادویات کا استعمال یا دیگر مانع حمل تدابیر کیا حکم رکھتی ہیں؟
اس بارے میں قطعی حکم بیان فرمادیں نوازش ہوگی۔
عام طور سے مسئلہ پوچھنے والوں کو ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگراستقرار حمل سےعورت یا اس کے شیرخوار بچے کی صحت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کی اجازت ہوگی۔
لیکن بعض دفعہ عورت اور شیرخوار بچہ دونوں کی صحت متاثر ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا البتہ ایک تیسری وجہ ہوتی ہے گھر کا تنگ ہونا اس وقت کی حکم ہوگا تدابیر اختیار کرنے کا؟
براہ کرم مذکورہ سوالات کے جوابات عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : مجتبی ثاقب، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : موجودہ دور میں بچوں کی تعداد میں تحديد اور کمی کی غرض سے مرد کنڈوم اور عورتیں کوپرٹی کا استعمال کرتی ہیں، تاکہ مادہ منویہ رحم میں داخل نہ ہوسکے، یہ صورت گو کہ نئی ہے مگر چونکہ کم اولاد ہونے کا جذبہ بہت قدیم اور پرانا ہے، اس لئے ہمیں اسلام کے ابتدائی عہد میں بھی اس کی نظیر و مثال ملتی ہے۔

اسلام سے پہلے لوگ اس کے لیے "عزل" کا طریقہ اختیار کرتے تھے، عزل یہ ہے کہ ہمبستری کے دوران جب انزال کا وقت آئے تو مرد اپنا عضو مخصوص باہر نکال لے. احادیث میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے، مگر اس کا حکم کیا ہوگا؟
اس سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیث سے مطلقاً جواز معلوم ہوتا ہے اور اکثر فقہاء احناف رحمھم اللہ کا اسی طرف رجحان ہے بشرطیکہ بیوی کی اجازت سے ہو. بعض حضرات مکروہ قرار دیتے ہیں، اکثر فقہاء کی یہی رائے ہے، اور زیادہ تر احادیث بھی ایسی منقول ہیں اور بعض احادیث سے تو بالکل حرمت معلوم ہوتی ہے، مثلاً یہ کہ بعض روایات میں اس کو "مؤودت" (بچوں کو زندہ درگور کرنا) قرار دیا ہے ۔
زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ بلاعذر عزل کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے، بالخصوص اس وقت جب کہ محض معاشی حالات کے پیش نظر اولاد سے بچنا مقصود ہو اور محققین فقہاء احناف رحمھم اللہ کو بھی اس کا اعتراف ہے ۔
چنانچہ ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی حدیث کے اس فقرہ " ذَلِکَ الْوَأْدُ الْخَفِيُّ"( یہ پوشیدہ طور پر زندہ درگور کرنا ہے) کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ذالک لایدل علی حرمۃ العزل بل یدل علی کراھتہ ( مرقاۃ المفاتیح : 441/2)
ترجمہ : یہ عزل کی حرمت کو نہیں بتلاتا بلکہ محض کراہت کو بتاتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ کنڈوم اور کوپرٹی کا استعمال مکروہ ہے، بالخصوص اس وقت جب کہ یہ محض معاشی پریشانی کے احساس پر مبنی ہو۔ البتہ کسی عذر کی بنا پر ہوتو اجازت ہے مثلاً حمل ٹھہر جانے کی وجہ سے شیر خوار بچہ کے دودھ سے محروم ہوجانے کا اندیشہ ہو یا عورت کی صحت کو معمول سے زیادہ خطرہ لاحق ہو۔ البتہ ان اعذار کے باعث بھی جب کنڈوم کا استعمال کرے تو بیوی کی اجازت لے لینی چاہیے کہ عزل میں بھی یہی حکم ہے، اس لیے کہ عورت کی جنسی تسکین پر اس کا اثر پڑتا ہے۔

ضبط تولید کی دوسری صورت یہ ہے کہ مادہ منویہ تو عورت کے رحم میں پہنچ جائے مگر ایسی دواؤں کا استعمال کیا جائے کہ استقرار حمل نہ ہوسکے، فقہی نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت عام حالات میں ناجائز ہے، اس لئے کہ وجود انسانی کا سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ نطفہ رحم میں جاکر عورت کی منی کے ساتھ مل جائے اور زندگی کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے تو اس کا برباد کردینا گناہ ہوگا، لہٰذا بلا عذر شرعی مانع حمل ادویات کا استعمال جائز نہیں ہے۔

امید ہے کہ درج بالا تفصیلات میں آپ کے تمام سوالات کے جوابات آگئے ہوں گے، اس لئے اب مزید کسی تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔

مستفاد : جديد فقہی مسائل، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 رجب المرجب 1439

4 تبصرے: