اتوار، 28 اکتوبر، 2018

قضائے عمری کا ثبوت اور اس کی ادائیگی کا طریقہ

*قضائے عمری کا ثبوت اور اس کی ادائیگی کا طریقہ*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ قضاء عمری ادا کرنا حدیث سے ثابت ہے کیا؟ اور ہے تو اسکا ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اور زیادہ نمازیں ہوں تو اس کی ادائیگی کا آسان طریقہ بھی بتادیں۔ مدلل جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : شکیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قضائے عمری کا  وجود درج ذیل صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے :
جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے جب اسے یاد آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں۔
من نسي صلاة فلیصل إذا ذکرہا لا کفارة لہا إلا ذلک
(کتاب المواقیت، باب/ ۳۷، رقم الحدیث/ ۵۹۷)

صحیح مسلم میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے :
جو آدمی (نیند وغیرہ کی بناء پر ) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ) 20۔طہ : 14) یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔
إذا رقد أحدکم عن الصلاة أو غفل عنہا، فلیصلّہا إذا ذکرہا فإن اللہ عز وجلّ یقول: أقم الصلاة لذکري: (آخر کتاب المساجد رقم الحدیث: ۱۵۶۹)

اور سنن نسائی میں ہے :
رسول کریم ﷺ سے دریافت فرمایا گیا ایسےشخص کے بارے میں جو کہ نماز سے سو جاتا ہے یا اس کی جانب سے وہ شخص غفلت میں پڑ جاتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کا کفارہ یہی ہے کہ جس وقت بھی اس کو یاد آئے تو وہ نماز پڑھ لے۔
سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الرجل یرقد عن الصلاة أو یغفل عنہا، قال کفارتہا أن یصلیہا إذا ذکرہا (۱/۱۷)

اِن احادیث میں آپ ﷺ نے یہ اصول بیان فرمادیا ہے کہ جب کبھی انسان کوئی نماز وقت پر نہ پڑھ سکے تو اس کے ذمے لازم ہے کہ یاد آنے پر، یا تنبہ ہونے پر اس کی قضاء کرے خواہ یہ نماز کسی طرح بھی چھوٹی ہو۔

کسی شخص پر اگر لمبی مدت کی نمازیں قضا ہوں تو ان کو  ادا  کرتے وقت نیت کا آسان طریقہ  یہ ہے کہ نیت کرے کہ میں مثلاً  قضا شدہ ظہر کی نمازوں میں سے پہلی یا آخری ظہر ادا کررہا ہوں، ہرقضا نماز میں اسی طرح نیت کرتا رہے تو اسی نیت سے اس کی نمازیں ادا ہوتی رہیں گی۔

بہتر تو یہی ہے کہ قضا نمازوں کو بھی عام نمازوں کی طرح ہی پڑھا جائے، لیکن اگر زیادہ قضا نمازیں ہوں تو چھوٹی سورتوں، اور رکوع وسجدہ میں ایک مرتبہ تسبیح پر اکتفا کرنے نیز التحیات کے بعد بہتر یہی ہے کہ مکمل درود شریف بھی پڑھ لیا جائے یا کم از کم اللھم صل علی محمد والہ پڑھ لینا چاہیے۔ اور دعائے ماثورہ کے چھوڑنے میں حرج نہیں، تاہم اس کی جگہ اللھم اغفرلی پڑھ لیا جائے تو بہتر ہے۔ تیسری چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کی جگہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ لینا بھی درست ہے۔ وتر کی قضا میں دعائے قنوت کی جگہ اللھم اغفرلی کہہ لیا جائے تب بھی وتر ادا ہوجائے گی۔ دعا قنوت سے پہلے ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں، صرف زبان سے اللہ اکبر کہہ لینا  کافی ہے۔ اسی طرح نوافل کی جگہ قضا نمازوں کو ہی ادا کرنا چاہیے۔

ولو نوی أول ظھر علیہ أو آخر ظھر علیہ جاز، وہٰذا ہو المخلص لمن لم یعرف أوقات الفائتۃ أو اشتبہت علیہ أو أراد التسہیل علی نفسہ۔ (شامی : ۱؍۹۶)

المصلی بالخیار في الأخریین إن شاء قرأ وإن شاء سکت وإن شاء سبّح ۔ قال الشامی: وہذا باب لا یدرک بالقیاس۔ (شامی : ۲/۲۲۱) 

وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين. و الأولي أن يقرأ : اللّهم إنا نستعينك و يقرأ بعده اللّهم اهدنا فيمن هديت. و من لم يحسن القنوت يقول: "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا غذاب النار"، كذا في المحيط. أو يقول: اللّهم اغفرلنا، و يكرر ذلك ثلاثاً، وهو اختيار أبي الليث، كذا في السراجية‘‘. (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/ ١١١)فقط

واللہ تعالٰی اعلم 

8 جمادی الآخر 1439

2 تبصرے:

  1. اگر کوئی صرف اتنی نیت کرے۔۔میں ظھر کی قضائے عمری پڑھتا ہوں۔۔۔اور وہ ساری عمر کی قضاء کرلے تو اسکی ساری عمر کی قضاء ہو جائے گی

    جواب دیںحذف کریں