*ٹائی لگانے کی شرعی حیثیت*
سوال :
مفتی صاحب! زید کو کالج کے کام سے پروگرام وغیرہ میں ٹائی لگانا کیسا ہے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ٹائی کی ابتداء نصاریٰ کے مذہبی شعار کے طور پر ہوئی تھی، کیونکہ اِس کی ہیئت صلیب سے ملتی جلتی ہوتی ہے، لیکن بعد میں اُسے لباس کا ایک جزو قرار دے دیا گیا اور مذہبی شعار کی حیثیت ختم ہوگئی۔ اَب سارے عالم میں انگریزی لباس کے ساتھ اُسے مذہبی تصور کے بغیر پہنا جاتا ہے، لہٰذا اُس کو پہننے میں کراہت تو ضرور ہے مگر پہلے جیسی شدید ممانعت باقی نہیں رہی، بہرحال مسلمانوں کو ایسے مکروہ لباس سے احتراز کرنا چاہئے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں زید کبھی کبھار ضرورت کے وقت ٹائی کا استعمال کرلے تو شرعاً اس کی گنجائش ہوگی، اس کا معمول نہ بنائے۔
وعنہ (أي عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من تشبہ بقوم‘‘: أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار۔ ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم والخیر۔ قال الطیبي: ہٰذا عام في الخَلق والخُلق والشعار، ولما کان الشعار أظہر في الشبہ ذکر في ہٰذا الباب۔ قلت: بل الشعار ہو المراد بالتشبہ لا غیر، فإن الخلق الصوري لا یتصور فیہ التشبہ … وقد حکی حکایۃً غریبۃً ولطیفۃً عجیبۃً، وہي أنہ لما أغرق اللّٰہ سبحانہ فرعون واٰلہ لم یغرق مسخرتہ الذي کان یحاکي سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام في لبسہ وکلامہ ومقالاتہ، فیضحک فرعون وقومہ من حرکاتہ وسکناتہ، فتضرع موسیٰ إلی ربہ: ’’یا رب! ہٰذا کان یؤذیني أکثر من بقیۃ آل فرعون، فقال الرب تعالیٰ: ما أغرقناہ، فإنہ کان لابسًا مثلاً لباسک، والحبیب لا یعذب من کان علی صورۃ الحبیب‘‘۔ فانظر من کان متشبہًا بأہل الحق علی قصد الباطل حصل لہ نجاۃ صوریۃ، وربما أدت إلی النجاۃ المعنویۃ، فکیف بمن یتشبہ بأنبیائہ وأولیائہ علیہ قصد التشرف والتعظیم۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب اللباس / الفصل الثاني ۸؍۱۵۵ رقم: ۴۳۴۷ رشیدیۃ)
(مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۱۹؍۲۸۹ ڈابھیل، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
9 شوال المکرم 1439
Tie is not necessary
جواب دیںحذف کریں