سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ شوال کے چھ روزوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اسکا اہتمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے ملتا ہے؟ اور اسکے بارے میں فقہاء کرام کی کیا رائے ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد ابراہیم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے نزدیک شوال کے چھ روزے صحیح ومفتی بہ قول کے مطابق مسنون و مستحب ہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص یہ روزے عیدالفطر کا دن ملاکر رکھتا ہے، یعنی : عیدالفطر اور اس کے بعد پانچ دن روزے رکھتا ہے تو یہ مکروہ ہے، کیونکہ عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے۔
شوال کے چھ روزوں کے متعلق رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک صحیح سند کے ساتھ حدیث کی مستند کتابوں میں موجود ہے :
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پوری زندگی روزہ رکھنے کے برابر ہے۔
اس حدیث کو امام مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ سب نے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، - رضى الله عنه - أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ۔ (رواہ الجماعۃ الاالبخاری والنسائی)
ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَسِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَكَاَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ كُلَّهَا۔ (مسند احمد، رقم : 14302)
ترجمہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔
پہلی حدیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو”پوری زندگی کے روزے“ اور دوسری حدیث میں ”پورے سال کے روزے“ رکھنے کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے تو "الحسنة بعشر أمثالها" (ایک نیکی کا کم از کم اجر دس گنا ہے) کے قاعدے کے مطابق اس ایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں، اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں برابر ہوجاتے ہیں، گویا رمضان اور اس کے بعد چھ روزے شوال میں رکھنے والا پورے سال کے روزوں کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس سے مذکورہ حدیث کا مطلب واضح سمجھ میں آتا ہے کہ ”گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے“ نیز اگر مسلمان کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ رمضان کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری ہو۔ اس توجیہہ سے حدیث مذکور کا مضمون ”یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے“ بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس تشریح کی تائید درج ذیل حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے :
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْحَارِثِ الذِّمَارِيُّ، عَنِ ابِي، أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: صِيَامُ شَهْرٍ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ وَسِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَهُنَّ بِشَهْرَيْنِ فَذَلِكَ تَمَامُ سَنَةٍ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ.
ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا : رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔ (السنن الدارمی : 1762 و سندہ صحیح ، سنن ابن ماجہ : 1715 ، صحیح ابن خزیمہ : 2115 ، صحیح ابن حبان : 3635 ، السنن الکبری للنسائی : 2861 ، مسندہ احمد 280/5)
شوال کے چھ روزوں کے متعلق صحابہ رضی اللہ عنہھم اجمعین کا معمول صراحتاً روایتوں میں تو نہیں ملتا، لیکن جمہور علماء امت کا ان روزوں کے مستحب ہونے پر اتفاق ہے۔ البتہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ملتا ہے کہ انھوں نے اپنے "مؤطا" میں ان روزوں کو منع فرمایا ہے، اور اہل علم کے نزدیک مکروہ قرار دیا ہے۔ تو اس کے متعلق عرض ہے کہ ایک صحیح حدیث کی موجودگی میں جس کو جمہور امت نے قدیماً وحدیثًا تسلیم کیا ہو، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو جو کسی بھی مرفوع روایت سے مؤید بھی نہیں ہے، ترجیح دینا اصول کے خلاف ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امام مالک علیہ الرحمۃ نے بھی مطلقاً منع نہیں فرمایا ہے، بلکہ ان روزوں کو فرض یا ضروری قرار دینے کومنع فرمایا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ خود مالکی مذہب سے تعلق رکھنے والے اہل علم نے بھی امام مالک علیہ الرحمہ کے اس قول کی بنیاد پر مذکورہ صحیح وصریح، مرفوع حدیث کو ناقابل عمل نہیں سمجھا ہے، بلکہ امام مالک رحمہ اللہ کےقول کی صحیح تاویلیں پیش کی ہیں۔
مشہور مالکی فقیہ ومحدث ’’علامہ ابن عبدالبر‘‘ نے تیس جلدوں پر مشتمل اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’الاستذکار‘‘ (جو مؤطا امام مالک کی شرح ہے) میں شوال کے چھ روزوں کی اہمیت مذکورہ حدیث کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے امام مالک رحمۃ ﷲ علیہ کے اس قول کے متعلق لکھتے ہیں کہ : امام مالک علیہ الرحمہ کے نزدیک یہ روزے ان شاء اللہ مکروہ نہیں ہوں گے، ہاں ان روزوں کو فرض قرار دینا منع کرتے ہیں۔
ملاحظہ ہو’’علامہ ابن عبدالبر‘‘کی عبارت:
واماصیام الستۃ الایام من شوال علی طلب الفضل وعلی التاویل الذی جاء بہ ثوبان ــرضی اﷲعنہ ــ فان مالکالایکرہ ذلک ان شاء اﷲ،لان الصوم جنۃ وفضلہ معلوم لمن ردطعامہ وشرابہ وشھوتہ ﷲ تعالٰی وھوعمل بروخیر،وقد قال اﷲ تعالیٰ عزوجل ’’وافعلوا الخیر‘‘(سورۃ الحج ۷۷)ومالک لایجھل شیئامن ھذاولم یکرہ من ذلک الاماخافہ علی اھل الجھالۃ والجفاء اذااستمرذلک وخشی ان یعدوہ من فرائض الصیام مضافاالی رمضان، ومااظن مالکاجھل الحدیث وﷲاعلم لانہ حدیث مدنی انفرد بہ عمربن ثابت، وقد قیل انہ روی عنہ مالک ولو لاعلمہ بہ ماانکرہ واظن الشیخ عمر بن ثابت لم یکن عندہ ممن یعتمدہ علیہ،وقد ترک مالک الاحتجاج ببعض مارواہ عن بعض شیوخہ اذا لم یثق بحفظہ ببعض مارواہ، وقد یمکن ان یکون جھل الحدیث ولوعلمہ لقال بہ۔ واللہ اعلم۔ (الاستذکار لابن عبدالبرالمالکی -کتاب الصوم -باب جامع الصیام۳؍۳۸۰-ط: دار الکتب العلمیۃ)
شوال کے چھ روزوں کے متعلق فقہاء احناف کی آراء ملاحظہ فرمائیں۔
صاحب بدائع علامہ کاسانی فرماتے ہیں : اتباع مکروہ یہ ہے کہ آدمی عیدالفطر کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد پانچ دن روزے رکھے، اور اگر کسی نے عید الفطر کے دن افطار کیا، پھر اس کے بعد چھ دن روزے رکھا تو یہ مکروہ نہیں، بلکہ مستحب وسنت ہے۔
والإتباع المکروہ ھو أن یصوم یوم الفطر ویصوم بعدہ خمسة أیام، فأما إذا أفطر یوم العید ثم صام بعدہ ستة أیام فلیس بمکروہ؛ بل ھو مستحب وسنة (بدائع الصنائع ، کتاب الصوم ۲: ۵۶۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔
صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں : مرغوب وپسندیدہ روزوں میں شوال کے مسلسل چھ روزے بھی ہیں۔
(رسالہ: تحریر الأقوال فی صوم الست من شوال من مجموعة رسائل العلامة قاسم بن قطلوبغا، ص ۳۸۶ )۔
فتاوی عالمگیری میں البحر الرائق کے حوالے سے ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں کچھ حرج نہیں، اور محیط سرخسی کے حوالے سے ہے : صحیح تر قول یہ ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں کچھ حرج نہیں، یعنی : یہ روزے مستحب ہیں، کیونکہ حرج کی نفی قول کراہت کے مقابلہ میں ہے اور ایسی صورت میں حرج نہ ہونے کا مطلب استحباب ہوتا ہے۔
عامة المتأخرین لم یروا بہ - بصوم الستة من شوال- بأساً ھکذا فی البحر الرائق، والأصح أنہ لا بأس بہ کذا فی محیط السرخسي (الفتاوی الھندیة، کتاب الصوم ، الباب الثالث فیما یکرہ للصائم وما لا یکرہ،۱: ۲۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،وکلمة ” لا بأس“ ھنا مستعملة فی المندوب ؛لأنہا لیست مطردة لما ترکہ أولی، بل تستعمل فی المندوب أیضاً إذا کان المحل مما یتوھم فیہ البأس أي: الشدة، خاصة إذا تأید ذلک الأمر بالحدیث النبوي - علی صاحبہ الصلاة والسلام - کذا حققہ الحصکفي وابن عابدین الشامي فی الدر المختار وحاشیتہ رد المحتار (کتاب الطھارة۱: ۲۴۱، کتاب الصلاة، باب العیدین ۳: ۶۵،باب الجنائز في شرح قول الدر: ” ولا بأس برش الماء علیہ “ ۳:۱۴۳ و۶: ۲۵۷ ط مکتبة زکریا دیوبند)، ومثلہا کلمة ” لا جناح “ بل قد استعملت ھذہ في سورة البقرة (رقم الآیہ: ۱۵۸)بمعنی الوجوب کما في رد المحتار لابن عابدین الشامي (۶: ۲۵۷)،وکلمة ” لا حرج“ أیضاً؛لأنہا بمعناھا۔ھ:
علامہ حصکفی نے در مختار میں ابن کمال کے حوالے سے وہی مضمون نقل فرمایا ہے، جو اوپر بدائع کے حوالے سے ذکر کیا گیا، یعنی : عید الفطر کا دن چھوڑ کر ماہ شوال میں چھ روزے رکھنا مستحب وسنت ہے، اور علامہ شامی نے اپنے حاشیہ میں اسے برقرار رکھا، بلکہ متعدد کتابوں کے حوالے سے اسے مؤکد فرمایا اور کراہت کے قول کی تردید فرمائی اور آخر میں علامہ قاسم بن قطلوبغا کے رسالہ (:تحریر الأقوال فی صوم الست من شوال) کا حوالہ دیا جس میں علامہ قاسم بن قطلوبغا نے کراہت کے قول کی تردید فرماکر کتب مذہب سے استحباب وسنیت کا قول مؤکد فرمایا ہے، ذیل میں صرف در مختار کی عبارت پیش کی جاتی ہے :
والإتباع المکروہ ھو أن یصوم الفطر و خمسة بعدہ، فلو أفطر لم یکرہ؛ بل یستحب ویسن، ابن کمال (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما یکرہ فیھا، ۳: ۴۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
علامہ محمد یوسف بنوری نے بھی سنن ترمذی کی مشہور شرح : معارف السنن (کتاب الصوم، باب ما جاء في صیام ستة من شوال) میں علامہ قاسم بن قطلوبغا کے رسالہ کی روشنی میں اسی قول کو مؤکد فرمایا ہے کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں اور کراہت کے قول کی تردید فرمائی ہے۔
علامہ ظفر احمد عثمانی نے اعلاء السنن میں حضرت ابی ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت پر استحباب کا باب قائم فرمایا ہے، یعنی : باب استحباب صیام ستة من شوال الخ۔ جس سے معلوم ہوا کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں۔ (۹: ۱۷۷، مطبوعہ: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة، کراچی)
حکیم الامت حضرت مولانا أشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : عید کے چھ دن نفل روزہ رکھنے کا بھی اور نفلوں سے زیادہ ثواب ہے۔ (بہشتی زیور کامل ۳ : ۱۴۲)
مشہور محقق وفقیہ’’ الدکتور وھبہ الزحیلی‘‘ نے اپنی کتاب’’ الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘ میں ان روزوں کو جو بالاتفاق تمام ائمہ کے نزدیک مستحب ہیں، گنتے ہوئے نمبر چار میں شوال کے چھ روزوں کو ذکر کیا ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان روزوں کے استحباب پر چاروں مذاہب کے علماء متفق ہیں مذکورہ کتاب کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :
وایام صوم التطوع بالاتفاق ما یلی :
4) صوم ستۃ ایام من شوال ولو متفرقۃ
(الفقہ الاسلامی وأدلتہ، للدکتور وھبۃ الزحیلی-کتاب الصوم -النوع الرابع -صوم التطوع او الصوم المندوب -۲؍۵۸۸-ط: دار الفکر بیروت۔)
ذکر کردہ دلائل اور حوالہ جات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ شوال کے چھ روزے احناف کے نزدیک بلا شبہ مستحب اور باعثِ ثواب ہیں، رمضان کے ساتھ ساتھ ان مستحب چھ روزوں کی وجہ سے پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے اس لئے ان کا اہتمام بڑی سعادت کی بات ہے۔ البتہ یہ روزے فرض یا واجب نہیں ہیں، اس لئے اگر کوئی نہ رکھے تو گناہ گار بھی نہیں ہوگا۔ اسی طرح عیدالفطر کا دن چھوڑ کر اس مہینے کے اندر کسی بھی وقت یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں، مسلسل یا الگ الگ دنوں میں رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں جس طرح آسان ہو اس طرح رکھ سکتا ہے۔
والإتباع المکروہ ھو أن یصوم الفطر و خمسة بعدہ، فلو أفطر لم یکرہ؛ بل یستحب ویسن، ابن کمال (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما یکرہ فیھا، ۳: ۴۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
مستفاد : فتوی دارالعلوم دیوبند، رقم الفتوی 68042، فتاوی بینات، 2/631)
فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 رمضان المبارک 1439
جزاك الله خير الجزاء
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
حذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںواقعی میں بڑا تحقیقی جواب ہے
جواب دیںحذف کریںاللہ عزوجل آپ کے علم و عمل میں بہت ترقی عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریں