*ناخن کاٹنے کے احکام*
سوال :
مفتی صاحب! ناخن کاٹنے سے متعلق چند سوالات ہیں، امید ہے کہ آپ ان کا مدلل جواب دیکر عنداللہ ماجور اور عندالناس مشکور ہوں گے۔
1) کیا ناخن کاٹنا کسی دن یا کسی وقت منع ہے؟
2) بڑے بڑے ناخن رکھنا کیسا ہے؟ اور ناخن کب کاٹنا بہتر ہے؟ اور اس میں کتنی تاخیر کرنا ناجائز ہے؟
3) ناخن کاٹنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
4) ناپاکی کی حالت میں ناخن کاٹنا کیسا ہے؟
5) ناخن کاٹنے کے بعد اس کا کیا کیا جائے؟ دفن کرنا ضروری ہے؟ اور اگر دفن کرنا ہوتو اسے سفید کاغذ میں لپیٹ کر دفن کیا جائے گا؟ کیونکہ عبقری کے حوالہ سے یہ بات سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہے، براہ کرم اس کی حقیقت سے بھی آگاہ فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بلاشبہ ناخن کاٹنے سے متعلق عوام الناس میں بعض بے اصل اور من گھڑت باتیں رائج اور مشہور ہیں، چنانچہ ایسے حالات میں آپ کے سوالات بڑی اہمیت کے حامل ہیں، لہٰذا ان کے جوابات مدلل لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
1) ناخن کاٹنا کسی دن بھی ممنوع نہیں ہے جب چاہیں کاٹ سکتے ہیں، بدھ کے متعلق ایک روایت بیان کی جاتی ہے جو بے اصل اور من گھڑت ہے۔ اسی طرح وقت کی بھی قید نہیں ہے، دن، رات میں کسی بھی وقت کاٹنا بلا کراہت درست ہے۔
خلیفہ ہارون الرشید نے امام ابویوسف رحمہ اللہ سے رات میں ناخن کاٹنے کے متعلق پوچھا : امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا : کاٹ سکتے ہیں۔ ہارون رشید نے کہا اس کی دلیل کیا ہے؟ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ اچھے کام میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
2) فیشن کے طور پر بڑے بڑے ناخن رکھنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ شریعتِ مطہرہ نے ناخن کاٹنے کو امورِ فطرت میں شمار کیا ہے، اور اس کے لیے دن بھی مقرر کیے ہیں، یعنی ہفتہ میں ایک بار کاٹنا مستحب، پندرہ دنوں کے بعد جائز، اور چالیس دن سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے، چنانچہ لمبے لمبے ناخن نیز غیروں کی مشابہت میں رکھنے والا گنہگار ہوگا۔
3) ناخن کاٹنے کا کوئی مسنون طریقہ منقول نہیں ہے، جس طرح چاہیں کاٹ سکتے ہیں۔ البتہ در مختار اور اسکے حاشیہ میں اسی طرح امام نووی نے مسلم کی شرح میں درج ذیل طریقہ ذکر کیا ہے، لہٰذا اس پر عمل کیا جاسکتا ہے، تاہم اسے سنت نہ سمجھا جائے۔
دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے ابتدا کریں، اور چھوٹی انگلی پر ختم کریں، پھر بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے کاٹتے ہوئے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کریں، اور پیر کے ناخن میں دائیں پیر کی چھوٹی انگلی سے ابتدا کریں، اور بائیں پیر کی چھوٹی انگلی پر ختم کریں۔
4) جنابت کی حالت میں پورا جسم ظاہری طور پر نجاست کا شکار ہوتا ہے اس لیے پورے جسم کا دھونا فرض ہے، ایسی حالت میں ناخن اور بال کاٹنے کو فقہاء کرام نے مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے۔ لیکن اگر زیر ناف بال یا ناخن کاٹے ہوئے چالیس دن گذر گئے ہوں تو پاک ہونے کا انتظار نہ کرے، بلکہ اس وقت ناپاکی کی حالت میں بال صاف کرنا اور ناخن کاٹ لینا بلا کراہت درست ہوگا۔
یہاں ایک بات اچھی طرح سے ملحوظ رہے کہ کراہت تنزیہی سے بچنا بہتر ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی اس کا مرتکب ہوجائے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا، اس کا معمول بنانا غلط ہے۔ لہٰذا ناپاکی کی حالت میں بال اور ناخن کاٹنے کو ناجائز اور حرام سمجھنا اور اس پر سختی سے نکیر کرنا قطعاً درست نہ ہوگا۔
5) ناخن کاٹنے کے بعد خواہ ناخن عورت کے ہوں یا مرد کے، کرامتِ انسانی کی وجہ سے انہیں زمین میں دفن کردینے کو فقہاء نے مستحب قرار دیا ہے۔ لیکن فی زماننا شہروں میں پکے مکانات کی کثرت کی وجہ سے اس پر عمل کرنا دشوار ہے، لہٰذا ایسے مقامات پر انہیں اگر کچرے میں ڈال دیا جائے تو بلاکراہت جائز ہے۔
نیز اگر ناخنوں کو دفن کرنا ہوتو اس میں بھی سفید کاغذ وغیرہ میں لپیٹنے کی شرط نہیں ہے اور نہ ہی احادیث سے اس عمل سے بیماری دور ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ بیماری دور ہونے والی بات حکیم طارق محمود بتاتے ہیں، جن کے متعلق محققین اہل علم حضرات کے یہاں مشہور ہے کہ وہ موضوعات (من گھڑت) باتوں کے بیان کرنے میں ماہر ہیں۔ اگر اسے از قبیل مجربات بھی تسلیم کیا جائے تب بھی ایسی متنازعہ فیہ شخصیت کے بتائے ہوئے مجربات پر عمل کرنے سے احتیاط ہی کرنا چاہیے۔
1) قلت : وفي المواہب اللدنیۃ قال الحافظ بن حجر: إنہ یستحب کیف ما احتاج إلیہ ولم یثبت في کیفیتہ شيئٌ ولا في تعیین یوم لہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وما یعزیٰ من النظم في ذلک للإمام علی ثم لابن حجر قال شیخنا: إنہ باطل۔ (الدر المختار مع الشامي : ۹؍۵۸۲)
حکي أن ہارون الرشید سأل أبا یوسف رحمہ اللہ تعالی عن قصّ الأظافیر في اللیل فقال : ینبغي ، فقال : ما الدلیل علی ذلک ؟ فقال : قولہ علیہ الصلاۃ والسلام : ’’ الخیر لا یؤخر ‘‘ ۔ کذا في الغرائب ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، ۵/۳۵۸ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وقلم الأظافیر الخ)
2) ویستحب قلم أظافیرہ یوم الجمعۃ ۔۔۔۔ والأفضل یوم الجمعۃ، وجاز في کل خمسۃ عشر ، وکرہ ترکہ وراء الأربعین ۔ تنویر مع الدر ۔ قال الشامي : قولہ : (وکرہ ترکہ) أي تحریماً لقول المجتبی ، ولا عذر فیما وراء الأربعین ویستحق الوعید ۔ (۹/۴۹۵ - ۴۹۷ ، تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع)
3) وأما تقلیم الأظفار : فسنۃ لیس بواجب ، وہو تفعیل من القلم وہو القطع ، ویستحب أن یبدأ بالیدین قبل الرجلین، فیبدأ بمسبحۃ یدہ الیمنی ثم الوسطی ثم البنصر ثم الخنصر ثم الإبہام ثم یعود إلی الیسری فیبدأ بخنصرہا ثم ببنصرہا إلی آخرہا ثم یعود إلی الرجل الیمنی فیبدأ بخنصرہا ویختم بخنصر الیسری ۔ (۳/۴۷ ، کتاب الطہارۃ ، باب خصال الفطرۃ ، تحت رقم الحدیث : ۲۵۸، المنہاج شرح صحیح مسلم للنووي)
قولہ : (والأولی تقلیہما کتخلیلہا) یعني یبدأ بخنصر رجلہ الیمنی ویختم بخنصر الیسری قال في الہدایۃ عن الغرائب : وینبغي الابتداء بالید الیمنی والانتہاء بہا ، فیبدأ بسبابتہا ویختم بإبہاہما ، وفي الرجل بخنصر الیمنی ویختم بخنصر الیسری اہـ ۔ ونقلہ القہستاني عن المسعودیۃ قولہ : (قلت الخ) وکذا قال السیوطي : قد أنکر الإمام ابن دقیق العید جمیع ہذہ الأبیات وقال : لا تعتبر ہیئۃ مخصوصۃ ، وہذا لا أصل لہ في الشریعۃ ولا یجوز اعتقاد استحبابہ ، لأن الاستحباب حکم شرعي لا بد لہ من دلیل ولیس استسہال ذلک بصواب ۔ (شامی : ۵/۱۶۹)
4) حلق الشعر حالۃ الجنابۃ مکروہ، وکذا قص الأظافیر۔ (ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، قبیل الباب العشرین، ۵/۴۱۴)
5) فإذا قلم أظفارہ أو جزّ شعرہ، ینبغي أن یدفن ذٰلک الظفر والشعر المجزور۔ فإن رمی بہ فلا بأس۔ وإن ألقاہ في الکنیف أو في المغتسل یکرہ ذٰلک۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی الدر المختار، کتاب الحظر والإباحۃ، ۴؍۲۰۲)فقط
محمد عامر عثمانی ملی
18 جمادی الآخر 1439
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں