بدھ، 17 اکتوبر، 2018

ماہ محرم کی سبیل، اور اس میں کھیل تماشوں کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب!
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہونگے۔
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین درمیان اس مسئلہ کے کہ ماہ محرم الحرام میں دف بجانا اور اکھاڑا کھیلنا لاٹھی گھمانا کیا حکم رکھتا ہے؟ اسی طرح محرم کے موقع پر ایک طبقہ کی طرف سے جو شربت کی سبیل لگائی جاتی ہے اس کا حکم کیا ہے؟ اور کوئی شخص پی لے تو اس کا کیا حکم ہے؟
مدلل جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
(المستفتی : ناظم، عبداللہ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ورزش اور جنگی مشق کی غرض سے لاٹھی ڈنڈے نیزہ اور تیر وغیرہ کے ذریعہ سے کھیلنا کسی زمانہ کی تخصیص کے بغیر جائز ہے، بشرطیکہ ان کھیلوں کی وجہ سے معاشی اور دینی نقصان نہ ہو، ستر پوشی کا بھی خیال رکھا جاتا ہو، اس کی وجہ سے اپنے روزگار سے بے فکری نہ ہو جائے اور نہ ہی نماز اور ذکرِ الہی وغیرہ سے لاپرواہی ہو، تو ایسے کھیلوں کے ذریعہ سے بدن کی ورزش اور جنگی مشق کرنا بلاکراہت جائز ہے، لیکن سال بھر میں صرف محرم  کی ایک تاریخ سے دس تاریخ  تک اس طرح  کا  کھیل کھیلنا نہ جنگی مشق کیلئے ہوتا ہے اور نہ بدن کی ورزش کے لئے نیز ان تاریخوں کی قیود کے ساتھ جو کھیل ہوتا ہے وہ محض تلذذ اور تماشا بینی کیلئے ہوتاہے اس لئے یہ جائز نہیں ہے اور نہ ہی تلذذ کے لئے اس طرح کے کھیلوں  کا  دیکھنا درست ہے۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کی  مظلومانہ شہادت بلاشبہ اسلامی تاریخ کے المناک واقعات میں سے ایک ہے، لیکن اس واقعہ کو بنیاد بناکر جس طرح  کی  ماتمی مجلسیں منعقد  کی  جاتی ہیں، اور دین کے نام پرکھیل تماشے اور تفریحات (مثلاً ڈھول تاشہ کے ساتھ لاٹھی گھمانا، اکھاڑہ کھیلنا) ہوتی ہیں، ان سب کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، قرآن وحدیث اور صحابہ اور سلفِ صالحین کے عمل سے اس کا دور دور تک کوئی ثبوت نہیں ملتا، یہ سب خرافات بے اصل اور بدعت ہیں، لہٰذا ایسی مجالس کا انعقاد کرنا اور اس میں شرکت کرنا گناہ کی بات ہے، جس سے احتراز ہر مسلمان پر لازم ہے۔

اسی طرح حضرت حسین رضی اﷲ عنہ یا دیگر شہداء  کی شہادت کا ذکر کرنا یا بلا کسی التزام کے عام لوگوں کے لئے پانی یا دودھ وغیرہ کی سبیل  لگانا وغیرہ فی نفسہٖ جائز ہے۔ مگر عشرہ محرم الحرام کی قید کے ساتھ لوگ اس عمل کو بطور رسم کرتے ہیں، نیز اس میں روافض کے ساتھ مشابہت بھی ہے۔ اسی طرح اس عمل میں ایک خرابی یہ بھی پوشیدہ ہے کہ شربت  اس لیے پلایا جاتا ہے کہ حضراتِ شہدائے کربلا پیاسے شہید ہوئے تھے، اور شربت پیاس بجھانے والا ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس رسم کی پابندی کرنے والوں کا  عقیدہ یہ ہے کہ یہ  شربت  ان شہداء کو پہنچتا ہے، جبکہ یہ  شربت  وہاں نہیں پہنچتا، اور نہ ہی ان کو اس  شربت  کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے جنت میں اعلیٰ نعمتیں عطا کر رکھی ہیں، جن کے مقابلے میں یہاں  کا  شربت  کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اس لیے اس موقع پر شربت پلانے کی اس رسمِ بد سے اجتناب ضروری ہے۔

اگر محرم الحرام کے مخصوص ایام میں  بنائی جانے والی شربت  کی سبیل غیر اللہ کے نام پر ہو تو نص قرآنی ”وما اھل بہ لغیر اللہ“ کے تحت اسکا  کھانا حرام ہے اور اس کی حرمت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح  شدہ جانور کی حرمت میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن اگر یہ  شربت  وغیرہ اللہ تعالیٰ کے نام پر بنایا جائے اور سنّی مسلمان بنائیں تو یہ فی نفسہٖ حلال تو ہے لیکن اس کے لئے کسی دن کی تخصیص (مثلاً یوم عاشورہ) کرنا اور التزام وغیرہ ایسے امور ہیں جو سراسر بدعت اور گمراہی ہیں لہٰذا اس سے احتراز لازم ہے۔ 

ان خاص ایام میں کہیں سے حلیم وغیرہ گھر میں بھیجی جائے تو اسے نہ لینا چاہیئے اور سبیل سے شربت وغیرہ نہیں پینا چاہیے تاکہ اس سے بدعت کی تائید اور اشاعت میں  معاونت نہ ہو کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ (گناہ اور ظلم پر ایک دوسرے کی معاونت نہ کرو) ۔ لیکن اگر واپس کرنے میں فتنہ وفساد  کا اندیشہ ہو تو لے کر فقراء اور محتاجوں کو دے دیا جائے، اس پر کوئی وبال نہ ہوگا۔ اگر مذکورہ چیزیں لے کر کھالیا یا پی لیا تو اس پر ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کرے اور آئندہ اس سے مکمل طور پر اجتناب کرے۔

وعلیٰ ہذا الأصل فالألعاب التی یقصد بہا ریاضۃ الأبدان أو الأذہان جائزۃ فی نفسہا مالم تشتمل علی معصیۃ اخریٰ ومالم تؤ د الانہماک فیہا إلیٰ الإخلال بواجب الانسان فی دینہ ودنیاہ۔ ( تکملہ فتح الملہم ،کتاب الشعر ، باب تحریم اللعب بالنرد شیر ، حکم الألعاب فی الشریعۃ، اشرفیہ دیوبند ۴/۴۳۶)

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: فی حدیث طویل وکان یوم عید یلعب السودان بالدرق والحراب فإما سألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وإما قال تشتہین تنظرین وقلت: نعم ، فأقا منی وراءہ خدّی علی خدّہٗ وہو یقول: دونکم یا بنی أرفدہ حتی إذا ملکت قال لی: حسبک قلت: نعم ، فاذھبي۔(بخاری ، کتاب العیدین ، باب الحراب والرزق، یوم العید، النسخۃ الہندیۃ۱/۱۳۰، رقم: ۹۴۰، ف:۹۵۰)

تجوز المسابقۃ بالسہام والخیل والحمیر والإبل والأقدام وإن شرط فیہا جعل من إحدی الجانبین أو من ثالث لأسبقہما جاز ، وإن من کلا الجانبین یحرم۔ (مجمع الأنہر ، کتاب الکراہیۃ ، فصل فی المتفرقات، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴/۲۱۶)

لیس من اللہو إلا ثلاث تأدیب الرجل فرسہ ، وملاعبتہ أہلہ، ورمیہ بقوسہ (الحدیث) قال المحشی : قال الخطابی : یرید لیس المباح من اللہو إلا ثلاث۔ ( أبو داؤد شریف، کتاب الجہاد ، باب فی الرمی ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۳۴۰، دارالسلام رقم: ۲۵۱۳)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد، اللباس / باب في لبس الشہرۃ رقم: ۴۰۳۱)

عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد۔ (صحیح البخاري، الصلح / باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود رقم: ۲۶۹۷، صحیح مسلم، الأقضیۃ / باب کراہیۃ قضاء القاضي وہو غضبان رقم: ۱۷۱۸، سنن أبي داؤد، السنۃ / باب في لزوم السنۃ رقم: ۴۶۰۶)

فکل مسلم ینبغي لہ أن یحزنہ قتلہ ص؛ فإنہ من سادات المسلمین وعلماء الصحابۃ وابن بنت رسول اللّٰہ ا التي ہي أفضل بناتہ، وقد کان عابداً وشجاعاً سخیاً، ولکن لایحسن ما یفعلہ الشیعۃ من إظہار الجزع والحزن الذی لعل أکثرہ تصنع وریاء۔ وقد کان أبوہ أفضل منہ، فقتل، وہم لایتخذون مقتلہ مأتما کیوم مقتل الحسین، فإن أباہ قتل یوم الجمعۃ وہو خارج إلی صلاۃ الفجر في السابع عشر من رمضان سنۃ أربعین، وکذلک عثمان کان أفضل من علی عند أہل السنۃ والجماعۃ، وقد قتل وہو محصور في دارہ في أیام التشریق من شہر ذي الحجۃ سنۃ ست وثلاثین، وقد ذبح من الورید إلی الورید، ولم یتخذ الناس یوم قتلہ مأتما۔ وکذلک عمر بن الخطاب وہو أفضل من عثمان وعلي، قتل وہو قائم یصلی في المحراب صلاۃ الفجر، ویقرأ القرآن، ولم یتخذ الناس یوم قتلہ مأتما۔ وکذلک الصدیق کان أفضل منہ، ولم یتخذ الناس یوم وفاتہ مأتما۔ ورسول اللّٰہ ا سید ولد آدم في الدنیا والآخرۃ، وقد قبضہ اللّٰہ إلیہ کما مات الأنبیاء قبلہ، ولم یتخذ أحد یوم موتہم مأتما یفعلون فیہ مایفعلہ ہولاء الجہلۃ من الرافضۃ یوم مصرع الحسین۔ (البدایۃ والنہایۃ ۸؍۶۰۰، دارالمعرفۃ، بیروت)

وقد عاکس الرافضۃ والشیعۃ یوم عاشوراء النواصب من أہل الشام، فکانوا إلی یوم عاشوراء یطبخون الحبوب، ویغتسلون ویلبسون أفخر ثیابہم ویتخذون ذلک الیوم عیداً یصنعون فیہا أنواع الأطعمۃ، ویظہرون السرور والفرح یریدون بذلک عناد الروافض ومعاکستہم۔ (البدایۃ والنہایۃ ۸؍ ۵۹۹- ۶۰۰)

یظہر الناس الحزن والبکاء وکثیر منہم لا یشرب الماء لیلتئذ موافقۃ للحسین رضی اللہ عنہ ؛ لأنہ قتل عطشاناً … من البدع الشنیعۃ۔ (البدایہ والنہایہ ، دارالفکر بیروت۸/۲۰۲ )

قال اللہ تعالٰی :إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيْرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ۔( البقرہ : ۱۷۳)

وفی تفسیر روح المعانی (۴۲/۱) : والمراد بغیر اللہ تعالیٰ فی الصنم وغیرہ کماھو الظاھر۔

وفی التفسیر الکبیر (۲۳/۳) ط دارالفکر: والحجۃ فیہ انھم اذا ذبحوا علی اسم المسیح فقد اھلو بہ لغیر اللہ فواجب ان یحرم وروی عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قال اذا سمعتم الیھود والنصاری یھلون لغیر اللہ فلا تاکلوا اھ۔ 
مستفاد : فتاوی قاسمیہ، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 محرم الحرام 1440

5 تبصرے: