*طلاق کا اختیار صرف مرد کو کیوں؟*
سوال :
نکاح کے وقت اگر مرد و عورت دونوں کے ایک دوسرے کو قبول کرنےپر نکاح ہوتا ہے تو طلاق کے معاملے میں بنا عورت کی رضامندی سے صرف مرد کے کہہ دینے سے طلاق کیوں ہو جاتا ہے؟ یہ ایک غیرمسلم کا اعتراض ہے اسکو جواب بتانا ہے ۔
(المستفتی : محمد ریحان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ اسلامی میں اگر چہ معاشرت کے اعتبار سے مرد وعورت کے حقوق برابر ہیں، لیکن ان کے درمیان چونکہ فطری ساخت و بناوٹ کے اعتبار سے فرق ہے، اِسی لئے شریعت نے نہ تو عورتوں پر کمانے کا بوجھ ڈالا ہے اور نہ اُن کو طلاق کے اختیار میں مرد کے ساتھ برابر کا شریک بنایا ہے، کیونکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر عورت کو طلاق کا مکمل اختیار مل جائے تو اکثر نکاح پائیدار نہیں رہ پائیں گے، اس لئے کہ جہاں بھی تھوڑی بہت ناچاقی ہوگی بیوی طلاق دے کر گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔ اسی طرح اگر طلاق کے واقع ہونے کے لئے بیوی کی رضا مندی کو شرط قرار دیا جائے گا تو طلاق کا منشا ہی فوت ہوجائے گا۔ کیونکہ طلاق کا منشا یہ ہے کہ دل نہ ملنے کی وجہ سے تنگ زندگی سے نجات حاصل کی جائے، اب اگر بہرصورت بیوی کی اجازت طلاق میں ضروری قرار دی جائے گی تو بسا اوقات شوہر حالات کی وجہ سے طلاق دینا چاہے گا اورعورت طلاق پر آمادہ نہ ہوگی، تو ایسی صورت میں شوہر کو جس تنگی اور تکلیف کی کیفیت سے گذرنا ہوگا اُس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، اس لئے شریعت نے کامل دور اندیشی اور مرد وعورت میں فطری فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس معاملہ میں مرد کو عورت پر ایک گونہ فوقیت عطا کی ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے : وَلِلرِّجَالِ عَلَیٖہِنَّ دَرَجَۃٌ ۔ ( البقرۃ ، جزء آیت : ۲۲۸) ترجمہ : یعنی مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔
غور کیا جائے تو یہاں عقلاً تین صورتیں ہوسکتی ہیں :
١) میاں بیوی کے اختیارات میں برابری : - تو ایسی صورت میں نظام ہی قائم نہیں رہ سکتا، یکساں اختیارات کی دو الگ الگ شخصیتیں کسی نظام کو خوبی کے ساتھ چلا نہیں سکتیں، یہ فطرت کے خلاف ہے۔
٢) عورت کے اختیارات کا زیادہ ہونا : - تو عورت کی طرف سے صنفی کمزوری کی وجہ سے اختیارات کے غلط استعمال کا امکان زیادہ رہتا ہے، جو بالکل واقعی ہے، اس کے لئے کسی الگ دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔
٣) مردوں کو عورتوں پر فوقیت : - یعنی اِنتظامی اعتبار سے مرد کو عورت پر فوقیت دی جائے اور اُسے ’’ قوام ‘‘ یعنی ذمہ دار بنایا جائے۔ اِسی کی تائید قرآنِ کریم میں اِن اَلفاظ میں کی گئی ہے : اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ۔ (النساء ، جزء آیت : ۳۴)
ترجمہ : مرد عورتوں پر حاکم ہیں اِس واسطے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا فرمائی ہے، اور اِس لئے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
گویا کہ کفیل ہونے کے اعتبار سے بھی مردوں کا درجہ بڑھا ہوا ہے، جو بالکل معقول ہے۔
مزید غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی آخری صورت عملاً قابلِ عمل اور انجام کے اعتبار سے خیر اور بہتر ہے، اِس لئے کہ مرد عام طور پر عورت کے مقابلہ میں بہرحال زیاہ سوجھ بوجھ رکھتا ہے، اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرتا ہے۔ اور رہی بات بعض مردوں کے غلط فیصلوں کی تو ان بعض مردوں کے غلط فیصلوں کی بنا پر یہ اصول ٹوٹ نہیں سکتا، اس لئے کہ اصل اعتبار غالب اور اکثر کا ہوتا ہے ۔ اور واقعۃً صنفی حیثیت سے مردوں میں صبر وتحمل اور بصیرت کی استعداد عورتوں کے مقابلہ میں زیادہ رکھی گئی ہے، اور اس قدرتی اختلاف میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور حکمت بالغہ کی کاریگری کار فرما ہے۔
لیکن ساتھ میں مردوں کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ طلاق حلال باتوں میں اﷲ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے، (١) اس لئے مردوں کی ذمہ داری ہے کہ صبر وتحمل سے کام لیں اور طلاق کے اختیار کو صرف ناگزیر حالات ہی میں شریعت کے بنائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہی استعمال کریں، کیوں کہ بلاوجہ اور غیرشرعی طریقہ پر طلاق دینے کے جو مفاسد ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔
طلاق کا اختیار صرف مردوں کو ہے، یہ ہوئیں اس کی ظاہری مصلحتیں اور حکمتیں، جنہیں علماء نے بیان کیا ہے، ورنہ اصل تو حکمِ ِخداوندی ہے، جس کے بعد کسی چوں چرا کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔
١) عن ابن عمران النبی ﷺ قال ابغض الحلال الی اﷲ الطلاق رواہ ابوداؤد ( مشکوٰۃ باب الخلع والطلاق ج ۲ ص ۲۸۳)
مستفاد : کتاب المسائل،5/53)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
08 صفر المظفر 1440
ماشاءاللہ کیا خوب لکھا ہے مفتی صاحب نے
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ زبردست 🌹
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریں