*دلالی کی اُجرت کا شرعی حکم*
سوال :
محترم مفتی صاحب اطال اللہ عمرہ،
ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا کہ
بائع اور مشتری کے درمیان بیع منعقد کرنے کیلئے جو تیسرا آدمی بحیثیت وکیل کے ہوتا ہے، اس کی اجرت جس کو عرف میں دلالی یاکمیشن کہتے ہیں وہ جائز ہے یا نہیں؟
واضح فرماکر ممنون و مشکور فرمائیں ۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حلال اور مباح اشیاء کی خرید و فروخت میں دلالی کرنے کا پیشہ اختیار کرنا جائز ہے، اپنی محنت اور کام کے مطابق پہلے سے مناسب اجرت طے کردی جائے تو طے کردہ اجرت لے سکتا ہے، اور اُجرت ایک فریق (پارٹی) سے بھی لے سکتا ہے اور دونوں فریق سے بھی لے سکتا ہے۔ البتہ اُجرت طے اور متعین ہونا چاہئے، معاملہ مبہم نہ رہنا چاہئے۔
قال فی التاتارخانیۃ وفی الدلال والسمسار یجب اجر المثل وما تو اضعوا علیہ ان فی کل عشرۃ دنا نیر کذا فذاک حرام علیھم وفی الحاوی سئل محمد بن سلمۃ عن اجرۃ السمسار فقال ارجو انہ لابأس بہ وان کان فی الاصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیرمن ھذا غیر جائز فجوزوا لحاجۃ الناس الیہ ۔الخ (شامی : ۵۳/۵، کتاب الاجارۃ قبل فصل فی ضمان الا جیر)
مستفاد : فتاوی رحیمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ذی القعدہ 1439
بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ بائع سے پہلے سے بات کرلیتے اور مشتری کو بائع اور دلال کے تعلقات کے بارے میں معلومات نہیں رہتی ہے
جواب دیںحذف کریںدلال مشتری سے کہتا ہے کہ اس دکان پر سے لینا وہاں پر سامان سستا ملتا ہے جبکہ کبھی کبھی دوسری دکانوں کے مقابلے میں وہاں مہنگا ہوتا
لیکن دلال اپنا کمیشن نکالنے کے لیے مشتری وہاں بھیجتا ہے اور مشتری اس تعلق سے لا علم ہوتا ہے
ایسا مشتری کو انجان رکھ کر ایسا کرنا جائز ہے؟
اس طرح صرف رہنمائی کرنے میں کمیشن لینا جائز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر حضرات کا میڈیکل والوں سے کمیشن لینے سے متعلق ہمارا جواب لکھا ہوا ہے۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم
ڈاکٹروں کے متعلق فتویٰ گروپ میں ڈال دیے تو مہربانی ہوگی
جواب دیںحذف کریںمجھے بلاغ میں نہیں ملا