منگل، 16 اکتوبر، 2018

قربانی کے جانوروں سے متعلق اہم مسائل

*قربانی کے جانوروں سے متعلق اہم مسائل*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

محترم قارئین کرام ! مسلمانوں کے دوسرے بڑے تہوار عیدالاضحٰی کی آمد آمد ہے۔ اس موقع پر مسلمان اللہ تعالیٰ کے حکم پر سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہوئے ہزاروں لاکھوں جانوروں کو قربان کرتے ہیں۔ جس طرح قربانی کے عنداللہ مقبول ہونے کے لیے اخلاص و للہیت ضروری ہے اسی طرح قربانی کے جانوروں کا کتب احادیث و فقہ میں بتائی گئی شرائط کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے۔
چونکہ عید الاضحٰی سے کچھ پہلے ہی جانوروں کی خرید و فروخت کا معاملہ شروع ہوجاتا ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ اسی وقت لوگوں کو ان غلطیوں کی طرف متوجہ کیا جائے جس میں عوام اور بعض خواص بھی مبتلا ہیں، تاکہ لوگوں کی قربانیاں خراب ہونے سے محفوظ رہیں۔
اسی طرح جانور فروخت کرنے والے افراد بھی اس کا خاص خیال رکھیں، جان بوجھ کر ایسے جانور فروخت کرنا جن کی قربانی درست نہیں تو اس کا وبال بھی ان کے سر ہوگا۔

ملحوظ رہے کہ قربانی کے جانور میں جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، عقیقہ، نذر ومنت کے جانوروں میں بھی ان شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے۔

*قربانی کے جانوروں کی عمریں*

قربانی، عقیقہ، نذر و منت کے جانوروں کے متعلق یہ حکم ہے کہ ان کی عمریں ذیل کے مطابق ہوں، متعینہ مقدار سے ایک دن بھی کم ہوتو ان کی قربانی درست نہ ہوگی۔

1) بھیڑ / دنبہ : اگر فربہ اور صحت مند ہو تو ایک سال سے کم بھی ان کی قربانی  درست ہے، جب کہ چھ مہینہ سے زائد کے  ہوں۔

2) بکرا / بکری : ایک سال کا مکمل ہوچکا ہو۔
بعض حضرات بھیڑ اور دنبہ پر قیاس کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ بکرا اور بکری بھی ایک سال سے کم ہو لیکن دِکھنے میں ایک سال کا نظر آتا ہوتو اس کی قربانی جائز ہے، خوب یاد رہے کہ ایک سال میں ایک دن بھی کم ہوتو ان کی قربانی درست نہ ہوگی۔

3) گائے/بھینس : دو سال کے مکمل ہوچکے  ہوں۔

4) اونٹ : پانچ سال کا مکمل ہوچکا ہو۔
بعض معتبر ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ ہمارے شہر میں پانچ سال سے کم عمر کے اونٹ بقرعید کے ایام میں فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں، لہٰذا اونٹ کی قربانی کرنے والے احباب اونٹ کی عمر کے متعلق اچھی طرح چھان بین کرکے اونٹ خریدیں۔

وصح الجذع ذو ستۃ أشہر من الضأن إن کان بحیث لو خلط بالثنایا لا یمکن التمیز من بعد۔ (درمختار ۹؍۴۶۵)

والثنی من الغنم الذی تم لہ سنۃ وطعن فی الثانیۃ، ومن البقر الذی تم لہ سنتان وطعن فی الثالثۃ، ومن الابل الذی تم لہ خمس سنین وطعن فی السادسۃ۔ (درمختار مع الشامی زکریا ۹؍۴۶۶، تبیین الحقائق زکریا ۶؍۴۸۴، بدائع الصنائع زکریا ۴؍۲۰۶، مسائل قربانی وعقیقہ ۱۸)

ولایؤخذ فی الصدقۃ إلا ما یجوز فی الأضحیۃ۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، فصل مقدار الواجب فی السوائم، زکریا ۲/۱۳۰، کراچی ۲/۳۲)

✅ *وہ عیب جو قربانی کے درست ہونے میں مانع نہیں ہیں*✅

               قربانی کے لیے تندرست جانور کا انتخاب کرنا چاہیے، لیکن جانوروں میں بعض ایسے عیب پائے جاتے ہیں جنہیں شرعاً عیب تسلیم نہیں کیا گیا ہے، ان عیوب کے پائے جانے کے باوجود قربانی درست ہوتی ہے۔
وہ درج ذیل ہیں :

◼خصی جانور کی قربانی  نہ صرف جائز بلکہ افضل اور مسنون ہے، کیونکہ اس کا گوشت غیر خصی سے بہتر ہوتا ہے۔
والخصی افضل من الفحل لانہ اطیب لحماً۔ (ہندیۃ ۵؍۲۹۹)
ویضحی بالجماء والخصی۔ (درمختار زکریا ۹؍۴۶۷)

◼جس جانور  کے سینگ کا کچھ حصہ اوپر سے ٹوٹ گیا ہو (یا اس کا خول اترگیا ہو)   یا پیدائشی طور پر سینگ نہ ہوں (یا بچپن میں ہی اسکے سینگ کی جگہ آگ سے جلادی گئی ہو، جس کی وجہ سے آگے سینگ نہ نکل سکے ہوں) اس کی قربانی  درست ہے۔
ویضحی بالجماء ہی التی لا قرن لہا خلقۃ وکذا العظماء التی ذہب بعض قرنہا بالکسر او غیرہ ۔ (شامی زکریا ۹؍۴۶۷)

◼اگر جانور کا کان تھوڑا بہت کٹا ہے تو اس کی قربانی  درست ہے۔
وان یسیراً لا یمنع۔ (شامی زکریا ۹؍۴۶۸)

◼جس جانور کے دانت پیدائشی طور پر نہ ہوں اور قربانی کی عمر ہوگئی ہو یا دانت آکر جھڑ گئے ہوں اگر وہ چارا کھالیتا ہوتو اس کی قربانی جائز ہے۔
واما الہتماء وہی التی لا اسنان لہا فان کانت ترعی وتعتلف جازت والا فلا۔ (ہندیۃ ۵؍۲۹۸، البحر الرائق زکریا ۹؍۳۲۳)

◼زبان کٹا ہوا جانور جو چارہ کھالیتا ہو اس کی قربانی درست ہے۔
وقطع اللسان فی الثور یمنع وفی الشاۃ اختلاف… ولو کانت الشاۃ مقطوعۃ اللسان ہل تجوز التضحیۃ بہا؟ فقال نعم ان کان لا یخل بالاعتلاف وان کان یخل بہ لا تجوز التضحیۃ بہا۔ (ہندیۃ ۵؍۲۹۸)

◼اگر دم کا تھوڑا حصہ کٹا ہوتو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔
وان یسیراً لا یمنع۔ (شامی زکریا ۹؍۴۶۸)

◼ایسا جانور جو چوتھا پاؤں زمین پر ٹیک کرلنگڑا کرچل سکتا ہو تو اس کی قربانی  درست ہے۔
لو کانت تضع الرابعۃ علی الارض وتستعین بہا جاز۔ (درمختار مع الشامی زکریا ۹؍۴۶۸)

◼اگر گائے یا اونٹنی کے  چار تھنوں میں سے صرف ایک تھن کٹ جائے یا سوکھ جائے تو اس کی  قربانی  درست ہے۔
والشطور لا یجزئ وہی من الشاۃ ما قطع اللبن عن احدی ضرعہا، ومن الابل والبقر اذا انقطع اللبن من ضرعیہا۔ (تبیین الحقائق زکریا ۶؍۴۸۲)
والجذاء مقطوعۃ رؤوس ضرعہا او یابستہا۔ (درمختار زکریا ۹؍۴۶۹-۴۷۰)

◼باؤلے جانور کی قربانی جائز ہے، بشرطیکہ وہ چارہ وغیرہ چر لیتا ہو ۔
ویضحی بالجماء والثولاء أی المجنونۃ إذا لم یمنعہا من السوم والرعی وإن منعہا لاتجوز التضحیۃ بہا۔ (شامی، کراچی ۶/۳۲۳)

◼بانجھ  اور وہ جانور جو جفتی پر قادر نہ ہو اس کی قربانی جائز اور درست ہے۔
یجوز المجبوب العاجز عن الجماع والتی بہا السعال والعاجزۃ عن الولادۃ لکبر سنہا۔ (ہندیہ، کتاب الأضحیۃ، الباب الخامس فی بیان محل إقامۃ الواجب، قدیم زکریا ۵/۲۹۷، جدید زکریا ۵/۳۴۳)

◼گابھن جانورجس کی ولادت کا وقت قریب ہو اس کی قربانی بکراہت درست ہے۔
ان تقاربت الولادۃ یکرہ ذبحہا۔ (شامی زکریا ۹؍۴۴۱)

◼جرسی گائے میں چونکہ بیل کا نطفہ بذریعہ انجکشن گائے کے رحم میں پہنچایا جاتا ہے اور اس سے بچے کی ولادت ہوتی ہے۔ لہذا اُسے گائے کا بچہ کہا جائے گا، اور اسکا دودھ اور گوشت کھانا حلال ہوگا۔ اس لئے کہ حلت وحرمت میں جانور کا اعتبار اس کے ماں کے تابع ہوتا ہے اور جرسی گائے کی ماں گائے ہی ہوتی ہے اس لئے اس کا حکم گائے کا سا ہوگا۔
اگر قربانی کے جانور کا تولدغیرجنگلی جانور  سے ہوا ہے تو اس کی قربانی بھی درست ہے۔
لیکن قربانی  چونکہ ایک عظیم عبادت ہے۔ اور اس کے لیے جب غیر مشتبہ جانور بآسانی دستیاب ہوسکتے ہوں، تو اس قسم کے مشتبہ جانور کی قربانی سے بچنا بہتر واولیٰ ہے۔

لیعلم ان حکم الولد حکم امہ فی الحل والحرمۃ دون الفحل) فلو کانت امہ حلالا لکان ھو حلالا ایضاً لان حکم الولد حکم امہ لانھا منھا وھو کبعضھا۔ (بدائع الصنائع جلد ۵صفحہ ۵۵)

فإن کان متولداً من الوحشي والأنسي فالعبرۃ للأم ، حتی لو کانت البقرۃ وحشیۃ والثور أہلیاً لم تجز ، وقیل إذا نزا ظبي علی شاۃ أہلیۃ فإن ولدت شاۃ تجوز التضحیۃ وإن ولدت ظبیاً لا تجوز ۔ (ہندیہ، ۵/۲۹۷ )

❌ *وہ عیب جو قربانی کے درست ہونے میں مانع ہیں*

قربانی کے جانوروں کے وہ عیب جس کی وجہ سے قربانی درست نہیں ہوتی درج ذیل ہیں :

◼خنثی جانور (جس کے بارے میں پتہ ہی نہ چل سکے کہ وہ نر ہے یا مادہ) کی قربانی  درست نہیں ہے۔
ولا بالخنثی لان لحمہا لا ینضج۔ (درمختار زکریا ۹؍۴۷۰)

◼ایسا جانور جس کی سینگ ٹوٹنے کا اثر دماغ تک پہنچ گیا ہو (یعنی دماغ کی ہڈی میں سوراخ ہوگیا ہو) تو اس کی قربانی درست نہ ہوگی۔
فان بلغ الکسر الی المخ لم یجز۔ (شامی زکریا ۹؍۴۶۷)

◼ایسا جانور جس کے کان کا اکثر حصہ کٹ گیا ہو تو اس کی قربانی  درست نہ ہوگی۔
ومقطوع اکثر الاذن، لو ذہب بعض الاذن… ان کان کثیراً یمنع۔ (شامی زکریا ۹؍۴۶۸)

◼جس جانور کے کان پیدائشی طور پر نہ ہوں تو اس کی قربانی  درست نہ ہوگی۔
والسکاء التی لا اذن لہا خلقۃ، ولا تجوز مقطوعۃ احدی الاذنین بکمالہا والتی لہا أذن واحدۃ خلقۃ۔ (درمختار مع الشامی زکریا ۹؍۴۶۹)

◼جس جانور کی آنکھ کی بینائی بالکل یا اکثر چلی گئی ہو تو اس کی قربانی درست نہ ہوگی۔
ومقطوع اکثر العین ای التی ذہب اکثر نور عینہا۔ (درمختار زکریا ۹؍۴۶۸)

◼اگر دُم کا اکثر حصہ کٹا ہو تو ایسے جانور کی قربانی  جائز نہیں ہے۔
ومقطوع اکثر الذنب، لو ذہب بعض الذنب … ان کان کثیراً یمنع وان یسیراً لا یمنع۔ (شامی زکریا ۹؍۴۶۸)

◼جو جانور بالکل لنگڑا ہو یا اس قدر لنگڑا ہو کہ تین پاؤں زمین پر رکھتا ہو اور چوتھا پاؤں زمین پر رکھ ہی نہ سکتا ہوتو اس کی  قربانی  درست نہیں ہے۔
العرجاء التی لا تمشی الی المنسک ای التی لا یمکنہا المشی برجلہا العرجاء، انما تمشی بثلاث قوائم۔ (درمختار مع الشامی زکریا ۹؍۴۶۸)

◼بکری کے دو تھنوں میں سے ایک تھن اگر خشک ہوجائے یا کاٹ دیا جائے تو اس کی قربانی درست نہ ہوگی اور اگر گائے یا اونٹنی کے دو تھن کٹ جائیں یا سوکھ جائیں تو ان کی قربانی بھی جائز نہ ہوگی۔
والشطور لا یجزئ وہی من الشاۃ ما قطع اللبن عن احدی ضرعہا، ومن الابل والبقر اذا انقطع اللبن من ضرعیہا۔ (تبیین الحقائق زکریا ۶؍۴۸۲)
والجذاء مقطوعۃ رؤوس ضرعہا او یابستہا۔ (درمختار زکریا ۹؍۴۶۹-۴۷۰)

◼زبان کٹا ہوا جانور جو چرنے پر قادر نہ ہو اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔
وقطع اللسان فی الثور یمنع وفی الشاۃ اختلاف… ولو کانت الشاۃ مقطوعۃ اللسان ہل تجوز التضحیۃ بہا؟ فقال نعم ان کان لا یخل بالاعتلاف وان کان یخل بہ لا تجوز التضحیۃ بہا۔ (ہندیۃ ۵؍۲۹۸)

◼جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر ٹوٹ چکے ہوں اور وہ چارہ بھی نہ کھاسکتا ہوتو اس کی قربانی  درست نہیں ہے۔
واما الہتماء وہی التی لا اسنان لہا فان کانت ترعی وتعتلف جازت والا فلا۔ (ہندیۃ ۵؍۲۹۸، البحر الرائق زکریا ۹؍۳۲۳)

◼ ایسا جانور جو اس حد تک باؤلا ہو کہ چربھی نہ سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔
ویضحی بالجماء والثولاء أی المجنونۃ إذا لم یمنعہا من السوم والرعی وإن منعہا لاتجوز التضحیۃ بہا۔ (شامی، کراچی ۶/۳۲۳)

◼جو جانور صرف گندگی اور غلاظت کھاتا ہو دیگر چارہ نہ کھاتا ہو اس کی قربانی  درست نہیں ہے۔
ولا الجلالۃ التی تأکل العذرۃ ولا تأکل غیرہا۔ (درمختار زکریا ۹؍۴۷۰)

*قربانی کے جانوروں سے متعلق دیگر مسائل*

◼قربانی  کی نیت سے  خریدے گئے جانور کا دوودھ نکالنا، خواہ خود استعمال کیلئے ہو یا فروخت کرنے کیلئے ہو، جائز نہیں ہے، اور اگر کسی شخص نے  دودھ  نکال لیا، تو دودھ یا اس کی قیمت  کا  صدقہ کرنا واجب ہوگا، دودھ کی قیمت سے اسی جانور کو چارہ کھلانا بھی جائز نہیں ہے۔
لو اشتری شاۃ للأضحیۃ یکرہ أن یحلبہا أو یجز صوفہا فینتفع بہ ، لأنہ عینہا للقربۃ فلا یحل لہ الإنتفاع بجزء من أجزائہا قبل إقامۃ القربۃ بہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولو حلب اللبن من الأضحیۃ قبل الذبح أو جز صوفہا یتصدق بہ ولا ینتفع بہ ، کذا فی الظہیریۃ ۔ (۵/۳۰۰؍۳۰۱، ہندیہ)

◼قربانی کی نیت سے خریدے گئے جانور کا ایام قربانی میں اُون کاٹنا درست نہیں ہے، اگر کاٹ لے تو اُون یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔
اذااخذ شیئاً من الصوف من طرف من اطراف الاضحیۃ للعلامۃ فی ایام النحر لایجوز لہ أن یطرح ذٰلک الصوف ولاان یہب لاحد بل یتصدق بذٰلک الصوف علی الفقراء (الہندیۃ ۵؍۳۰۱؍، مکتبہ کوئٹہ پاکستان)

◼ کسی شخص نے قربانی  کی نیت سے ایک  جانور خریدا، اور وہ اس کے  بدلے کسی دوسرے  جانور کی قربانی  کرنا چاہے، تو دوسرا  جانور  پہلے جانور کی قیمت سے کم پر نہ خریدے، اور اگر اس نے دوسرا جانور  پہلے  جانور سے کم قیمت پر خرید لیا، تو پہلے اور دوسرے جانور کی قیمت میں جتنا فرق ہے اتنی قیمت صدقہ کردے۔
رجل اشتری شاۃ للأضحیۃ وأوجبہا بلسانہ ثم اشتری أخری جاز لہ بیع الأولیٰ فی قول أبی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللہ تعالی ، وإن کانت الثانیۃ شرا من الأولی فذبح الثانیۃ ، فإنہ یتصدق بفضل ما بین القیمتین ، لأنہ لما أوجب الأولیٰ بلسانہ فقد جعل مقدار مالیۃ الأولیٰ للہ تعالی ، فلا یکون لہ أن یستفصل لنفسہ شیئاً ، ولہذا یلزمہ التصدق بالفضل ۔ (ہندیہ، ۵/۲۹۴)

اللہ تعالٰی ہم سب کی قربانیوں کو ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی خامیوں اور کوتاہیوں محفوظ فرماکر اسے شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

14 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر ہے اللہ تعالی آپ کی جان ومال ایمان اور اعمال میں خوب برکت عطا فرمائے
    مفتی صاحب جانوروں کی قیمت کے بارے میں بھی کچھ لکھیں یعنی آجکل بہت قیمت لگائیجاتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاءاللہ بہت ہی بہترین اللہ آپ کو بہتر بدلی دے

    جواب دیںحذف کریں
  4. ماشاء اللہ
    تمام چیزوں کا احاطہ ہوگیا۔ زادِ اللہ علما وشرفا

    جواب دیںحذف کریں
  5. Janwar me agar ganth ho uski garden ke nichle hisse me jo ke dikhai na deti ho wo???

    جواب دیںحذف کریں
  6. ماشاءاللہ ,زبردست تحقیق اور حوالہ جات ہے.

    جواب دیںحذف کریں
  7. Mashaallah Mashaallah boht hi khub

    جواب دیںحذف کریں
  8. السلام علیکم لگ بھگ سبھی مسائل کا احاطہ ہو گیا ۔جزاک اللہ خیر

    جواب دیںحذف کریں
  9. سعدکےکاپیسہ پوپوکودے سکتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں