*مسجد میں تراویح کی جماعتِ ثانیہ کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان اس مسئلے میں کہ رمضان المبارک میں مریض عوام بعد نماز مغرب ڈاکٹروں سے رجوع کرتی ہے جس کا سلسلہ کافی رات تک جاری رہتا ہے اس کی وجہ سے ڈاکٹر حضرات کی نماز عشاء اور تروایح کی ادائیگی کیلئے شہر کی چند مسجدوں میں رات گیارہ بجے کے بعد دوسری تراویح کا نظم کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ضرورت کے پیش نظر کیا دوسری تروایح اور نماز عشاء نظم کرنا درست ہے؟ اور اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
اگر ضرورت کے پیش نظر اجازت ملتی ہے تو مسجد کے کس حصے میں اہتمام کیا جاسکتا ہے مسجد کے مقابل اوپر کے حصے میں یا پھر صحن کے حصے میں؟ آنجناب سے گذارش ہے کہ مذکورہ بالا سوالات کے جوابات مرحمت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ناظم ملی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد میں فرض نمازوں کی دوسری جماعت پہلی جماعت کی ہیئت بدل دینے کے باوجود مکروہ ہے۔ لیکن تراویح میں فرائض کی بہ نسبت توسع ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں عذر کی وجہ سے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرتے ہوئے تراویح کی جماعتِ ثانیہ پہلی جماعت کی ہیئت کی تبدیلی کے ساتھ کرنے کی گنجائش ہوگی، ہمارے اسلاف رحمہم اللہ سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالٰی نے امداد الاحکام،(634/1) پر یہ مسئلہ ذکر کیا ہے ۔
اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے آن لائن دارالافتاء سے بھی درج ذیل فتوی دیا گیا ہے جس کا جواب نمبر : 54176 ہے۔
بہتر تو بہرحال یہی ہے کہ ایک مسجدمیں تراویح کی مثل فرض نماز کے ایک ہی جماعت ہو، تاہم اگر کسی درجہ میں ضرورت ہو اور سب نمازی فرض عشاء ایک ہی امام کی اقتداء میں ادا کرکے تراویح کی دوسری جماعت کچھ مقتدی کرلیں اور دونوں جماعتوں کی آوازوں میں ٹکراؤ نہ ہوتا ہو اور دوسری جماعت کسی نفسانیت کی بنیاد پر نہ ہو اور کسی قسم کے مفسدہ کا بھی اندیشہ نہ ہو اور باہم مشورہ سے دوسری جماعت کریں تو گنجائش ہے، بعض کتب فتاوی مثل فتاوی محمودیہ، امداد الاحکام وغیرہ سے اس کا ثبوت ہوتا ہے ۔
ہیئت کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ مصلے اور اصل جماعت خانہ سے ہٹ کر فوقانی ہال وغیرہ میں تراویح کی جماعت ثانی کی جائے، پہلی ہیئت پر دوسری جماعت بالاتفاق مکروہ ہے۔
تاہم بہتر یہی ہے اور احتیاط اسی میں ہے کہ مسجد میں تراویح کی بھی تکرارِ جماعت نہ ہو، بلکہ اس کا حل یہ نکالا جائے کہ مختلف مساجد میں عشاء کی جماعت کے اوقات ہی میں حسبِ ضرورت فرق رکھا جائے، جیسا کہ عام دنوں میں مساجد میں فرض نمازوں کے اوقات میں فرق رکھا جاتا ہے۔
اسی طرح خارجِ مسجد مثلاً مدرسہ، مکان یا ہال وغیرہ میں کسی بھی جگہ تراویح کی جماعت کا اہتمام کیا جائے۔
لیکن اس میں بھی افضل یہ ہے کہ عشاء کی نماز مسجد کی جماعت کے ساتھ ادا کی جائے ورنہ مسجد کی فضیلت سے محرومی ہوگی۔
نوٹ : امدادالاحکام کے مسئلے کے مطابق ضرورت کے وقت مسجد میں تراویح کی جماعتِ ثانیہ کی گنجائش تو ہے، لیکن اس میں بھی عشاء کی جماعت کی تکرار خلافِ اولی ہے، لہٰذا اس کا خاص خیال رکھا جائے کہ مسجد کی پہلی جماعت کے ساتھ عشاء ادا کرلی جائے اس کے بعد بوقت فرصت تراویح ادا کی جائے۔
لمافی الشامیۃ (۵۵۳/۱) : عن ابی یوسف رحمہ اللہ انہ اذا لم تکن الجماعۃ علی الھیئۃ الاولی لا تکرہ والا تکرہ وھو الصحیح وبالعدول عن المحراب تختلف الھیئۃ کذا فی البزازیۃ۔
إن صلوا بالجماعۃ في البیت، والصحیح أن للجماعمۃ في البیت فضیلۃ، وللجماعۃ في المسجد فضیلۃ أخری، فہذا جاء بأحد الفضیلتین، وترک الفضیلۃ الزائدۃ، وفي الخانیۃ: والصحیح أن أدائہا بالجماعۃ في المسجد أفضل۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۳۲۰ رقم: ۲۵۳۹ زکریا)
مستفاد : امدادالاحکام، نجم الفتاوی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 شعبان المعظم 1439
Mashallah
جواب دیںحذف کریں