اشاعتیں

شہد کے پیالے میں بال والے واقعہ کی تحقیق

سوال : محترم مفتی صاحب امید ہے خریت سے ہوں گے ۔ ایک ويڈیو سوشل میڈیا پر بڑی تیزی کے ساتھ وائرل ہو رہا ہے۔ اُس ویڈیو میں ایک صاحب واقعہ بیان کر رہے ہیں جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیھم اجمعین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گھر تشریف فرما ہیں۔ حضرت علی مہمانان معظم کو ایک سفید برتن میں شہد پیش کرتے ہیں، جس میں ایک باریک سا بال ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر ہر کوئی اُس برتن کی سفیدی، شہد اور بال پر اپنے خیالات پیش کرتا ہے، حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی گفتگو میں شامل ہوتے ہیں۔ واقعہ کے آخر میں اللہ رب العزت وحی کے ذریعے فرمانِ مبارکہ نازل فرماتے ہیں۔ وہ طویل واقعہ اختصار کے ساتھ سوال میں لکھا گیا ہے۔محترم مفتی صاحب اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے کیوں کہ لوگ بہت اہتمام کے ساتھ اسے ارسال کر رہے ہیں۔ (المستفتی : حافظ مجتبی، مالیگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مکمل درج ذیل تفصیلات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ ایک  مرتبہ نبی کریم ﷺ اور...

بسی کی طرز پر ایک عمرہ اسکیم کا حکم

سوال : محترم جناب مفتی صاحب ! سوال یہ ہے کہ ٹور والے اگر کچھ ممبر جمع کرکے ہر ہفتہ یا مہینہ کچھ رقم بسی طرز پر پیسہ جمع کر کے ہر ہفتہ یا ہر مہینہ قرعہ اندازی کرکے اک شخص کو عمرہ پر بھیجیں گے اور اس کے بعد اس شخص کو آگے پیسہ بھرنا نہیں ہوگا، اور جس کا نمبر نہیں آئے گا اس کو اخیر تک بھرنا ہوگا۔ تو کیا یہ اسکیم شرعاً جائز ہے؟ (المستفتی : الطاف احمد، مالیگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں قرعہ ڈال کر جس شخص کا نمبر آئے اور اس کی بقیہ قسطیں معاف کردی جائے تو یہ معاملہ شرعاً جائز نہیں ہے، یہ قمار اور جوئے میں داخل ہے۔ اس لئے کہ یہاں عمرہ پر بھیجنے کی شرط قرعہ میں نام نکلنا ہے، یعنی ثمن (قیمت) مجہول ہے، نیز قسطوں کی ادائیگی کی مدت بھی متعین نہیں کہ کتنی رقم بھرنی ہوگی؟  کب تک بھرنی ہوگی؟ اسکا بھی علم نہیں ہے، لہٰذا یہ معاملہ غیر یقینی اور غیرمتعین ہے، شرعاً یہی جوا ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔ اور اگر لاعلمی میں کسی نے اس اسکیم میں حصہ لے لیا ہوتو اس کے لیے عمرہ کے اخراجات کی پوری رقم ادا کرنا ضروری ہوگا۔   ثم عرفوہ ...

آخر علماء کریں، تو کریں کیا؟

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی      (امام وخطیب مسجدکوہِ نور ) قارئین کرام ! شہری حالات کا علم رکھنے والے ہر شخص کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ شہر عزیز مالیگاؤں میں دن بدن نئی نئی برائیاں بڑھتی جارہی ہیں، اور ان برائیوں کو روکنے کی ذمہ داری تو ویسے ہر شخص کی ہے، یہ کام صرف علماء کرام کے کرنے کا نہیں ہے۔ لیکن شہر کے چند علماء کرام جن میں سرفہرست حضرت مولانا محمد عمرین صاحب محفوظ رحمانی (سیکرٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ) ہیں اور ان کے رفقاء نوجوان علماء کرام ہیں جو ہر منکرات اور برائیوں پر لکھتے اور بولتے ہیں، اور وقت پڑتا ہے تو ان کے ساتھ آگے بڑھ کر بھی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فی الحال ایک بیوٹی اکیڈمی معاملے میں انہیں علماء کرام نے براہ راست اکیڈمی پہنچ کر اصلاح کی کوشش کی، جس کی شہریان کی طرف سے بڑی سراہنا کی گئی اور ان شاءاللہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن ایک بیماری جو شہر میں چند سالوں سے عام ہوتی جارہی ہے کہ جہاں علماء کرام نے کسی برائی پر نکیر کی تو کوئی بھی ایرا غیرا اٹھتا ہے اور بے سوچے سمجھے سوشل میڈیا پر لکھ دیتا ہے کہ آپ کو فلاں کی فلاں برائی کیوں نہ...

عذابِ قبر روح یا جسم کو؟

سوال : مفتی صاحب جیسا کہ ہمارا ایمان ہے کہ میت کو دفنانے کے بعد جب سب اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں اسکے بعد قبر میں روح کو میت کے جسم میں واپس ڈال دیا جاتا ہے  سوال و جواب کے بعد جیسے اعمال ہوتا ویسے فیصلے ہوتے نیک لوگوں کیلئے جنت کی کھڑکیاں کھول دی جاتی ہے اور بد اعمال لوگوں کیلئے قبر کا عزاب مسلط ہوجاتا ہے۔  مفتی صاحب میرا آپ سے سوال ہے کہ بداعمالیوں کی وجہ سے جو عذاب قبر میں ہوتا ہے وہ میت کے جسم پہ ہوتا ہے یا روح پر ہوتا ہے؟ (المستفتی : محمد مصطفی، مالیگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : کفار ومشرکین اور بعض گناہ گاروں کو قبر میں عذاب ہوگا یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اَلنَّارُیُعْرَضُوْنَ عَلَیْها غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَّیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَاب۔ (سورۃ المؤمن : ٤٦) ترجمہ : وہ لوگ (برزخ میں) صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں، اور جس روز قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا) فرعون والوں کو (مع فرعون کے) نہایت سخت آگ میں داخل کرو۔ اس آیت میں فرعون او...

بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان قبولیت دعا؟

سوال : محترم مفتی صاحب ! کیا بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان دعا کی قبولیت کا موقع ہے؟ اس سلسلے میں کوئی حدیث ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔ (المستفتی : رفیق احمد، مالیگاؤں) ------------------------------------  بسم اللہ الرحمن الرحیم  الجواب وباللہ التوفيق : بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان قبولیت دعا سے متعلق ایک روایت متعدد کتب احادیث میں ملتی ہے جو درج ذیل ہے : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مسجد فتح میں تین دن مسلسل پیر منگل اور بدھ کو دعا مانگی وہ دعا بدھ کے دن دو نمازوں کے درمیان قبول ہوگئی اور نبی ﷺ کے روئے انور پر پھیلی ہوئی بشاشت محسوس ہونے لگی، اس کے بعد مجھے جب بھی کوئی بہت اہم کام پیش آیا میں نے اسی گھڑی کا انتخاب کر کے دعا مانگی تو مجھے اس میں قبولیت کے آثار نظر آئے۔  اس روایت کو ماہر فن علماء نے معتبر لکھا ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا اور اس پر عمل کرنا درست ہے۔ أنَّ النبيَّ ﷺ دَعا في مسجِدِ الفتحِ ثلاثًا يومَ الاثنينِ ويومَ الثلاثاءِ ويومَ الأربعاءِ فاسْتُجِيبَ لَهُ يَومَ الأربعاءِ بينَ الصلاتَيْنِ فَعُرِفَ البِشْرُ...

حضرت دحیہ کلبی کا اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کی تحقیق

سوال : مفتی صاحب ! درج ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے، اور کیا اس کو آگے بھیج سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔  حضرت *دحیہ قلبی* رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے۔ تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہوکر یعنی چھپ کر حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک دن سرورِ کونین تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حضرت دحیہ قلبی پر پڑی۔ آپؐ نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا کہ اتنا حسین نوجوان ہے۔ آپ نے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی؛ *"یا اللہ اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے، اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے، اسے مسلمان کردے، اتنے حسین نوجوان کو جہنم سے بچالے۔"* رات کو آپ نے دعاء فرمائی، صبح حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔  حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کہنے لگے؛ "اے اللہ کے رسول ! بتائیں آپؐ کیا احکام لےکر آئے ہیں؟" آپؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر توحید و رسالت ...

سانپ وغیرہ کو حضرت سلیمان کے عہد کی قسم دینا

سوال : ایک سوال ہے کہ عوام الناس میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر کوئی موذی جانور نظر آئے تو اسے سلیمان علیہ السلام کی قسم دینے سے وہ بخموشی اپنی راہ لے لیتا ہے، مثلاً یہ کہہ دے کہ تجھے سلیمان علیہ السلام کی قسم ہے کہ تو کسی کو گزند نہ پہونچا، یا اس سے مماثل الفاظ کہنا، اور یہ بھی مشہور ہے کہ اس طرح وہ موذی جانور اپنی راہ لے لیتا ہے، تو اسکی شرعی حیثیت کیا ہے اور یہ طریقہ اختیار کرنا کیسا ہے؟ اور حقیقت میں مؤثر ہے یا نہیں؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ (المستفتی : عبداللہ، جلگاؤں) ------------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفيق : گھروں میں ملنے والے سانپوں سے متعلق ایک ہدایت احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہے کہ پہلے اسے تین مرتبہ گھر سے نکلنے کا حکم دیا جائے گا کیونکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کسی جن نے سانپ کی شکل اختیار کرلی ہو۔ سنن ابوداؤد میں ہے : حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سانپوں کو جو گھروں میں رہتے ہیں مارنے سے منع فرمایا ہے، سوائے ان کے جن کی پشت پر ( کالی یا سفید) دو دھاریاں ہوتی ہیں اور جن کی دم نہیں ہوتی۔ ...