ہفتہ، 26 اپریل، 2025

واٹس اپ hack سے خبردار رہیں

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
        (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! سوشل میڈیا کا مقبول ترین app واٹس اپ اب عموماً لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کو hack کرکے لوگوں کی پرائیویسی میں جھانکنے جیسے سنگین جرم کا ارتکاب بڑھتا جارہا ہے۔

 گذشتہ تین چار سالوں سے واٹس اپ نمبر ہیک ہونے کی شکایت عام ہونے لگی، الگ الگ طریقوں سے واٹس اپ یا موبائل ہیک ہونے کے معاملات سامنے آرہے ہیں، فی الحال ایک ایپ کے ساتھ چند فحش تصویریں کسی بھی گروپ میں کسی کے بھی نمبر سے آرہی ہیں۔

گلابی واٹس اپ Pink whatsapp کی لنک بھی آئے دن گروپ میں آتی رہتی ہے، جس کے بارے میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس سے آپ کے واٹس اپ کا رنگ تبدیل ہوجائے گا، اس سے بھی واٹس اپ یا موبائل ہیک ہوجائے گا، لہٰذا اس لنک کو بھی ہرگز کلک نہ کریں۔

بچے موبائل میں گیم کھیلتے ہوئے درمیان میں اشتہار میں آنے والے گیم یا ایپ ڈاؤنلوڈ کرلیتے ہیں، اس طرح کے ایپ بھی آپ کے موبائل hack ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ لہٰذا اس پر بھی نظر رکھتے رہیں، اور انجانے ایپ کو فوری طور پر ڈیلیٹ کردیں۔

اگر آپ کو کسی گروپ میں ایسی فحش اور گندی تصویریں دکھائی دے اور اس کے ساتھ کوئی ایپ ہوتو آپ ہرگز اسے ڈاؤن لوڈ نہ کریں، اس لیے کہ یہی آپ کے واٹس اپ کے ہیک ہونے کا سبب بنے گا، اور آپ کے واٹس اپ نمبر کی ڈی پی بھی تبدیل ہوجائے گی اور اس پر ایک برہنہ لڑکی کی تصویر ہوگی، اور آپ کے نمبر سے دوسرے گروپ میں یہ تصویریں اور ایپ شیئر ہوجائے گا، جس سے آپ کو بہت زیادہ شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔

اللہ نہ کرے کہ ہم میں سے کسی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آئے، لیکن اگر کسی کے ساتھ ایسا ہوجائے تو فوراً واٹس اپ ڈیلیٹ کرکے دوبارہ اپنے نمبر کو لاگ ان کریں تو ان شاءاللہ واٹس اپ ہیک ختم ہوجائے گا۔ اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ واٹس اپ درست ہوجانے کے باوجود اپنا موبائل ایک مرتبہ reset کرلیں۔

جس گروپ میں اس طرح کی چیزیں شیئر ہوں، ایڈمن حضرات فوری طور پر یہ مواد ڈیلیٹ کردیں جس نمبر سے شیئر ہوئی ہے اس کو ریمو کردیں تاکہ دوسرے اس سے متاثر نہ ہوں، پھر جب اس بندے کا ہیک ختم ہوجائے تو دوبارہ ایڈ کرلیں۔

اللہ تعالیٰ ان فتنوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہم سب کو موبائل کا صحیح اور مفید استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

پیر، 21 اپریل، 2025

میرجعفر ومیرصادق کا روحانی فرزند

بدگو، بدزبان اکبر ہاشمی پونہ 

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
       (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! عنوان سے آپ کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ یہ تحریر ذاتیات پر مبنی ہوگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ذاتی اور انفرادی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ اجتماعی مسئلہ ہے، جس پر بولنا اور لکھنا ضروری ہے تاکہ امت کے ایک ناسور کا صحیح علاج کیا جاسکے۔ 

اکبر ہاشمی پونہ پر ہم نے اس سے پہلے بھی دو تفصیلی مضمون لکھا ہے جسے آپ اس لنک سے ملاحظہ فرمائیں اور اس کی مکمل حقیقت جان لیں۔



فی الحال وقف قانون 2025 کے سلسلے میں بھی یہ حسب معمول حکومت کی چاٹو گیری کرتا ہوا نظر آرہا ہے اور اس پر اس نے دو دو ویڈیو بھی بنائے ہیں جس میں صاف صاف اس کالے قانون کی حمایت کررہا ہے اور نوجوانوں سے کہہ رہا ہے کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کی طرف سے جو بھی احتجاج ہورہے ہیں یا ہوں گے اس میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج پوری قوم اس کالے قانون کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور یہ دھڑلے سے یہ کہہ رہا کہ کوئی بھی اس احتجاج میں حصہ نہ لے۔ جبکہ اس کالے قانون کی حمایت کرنا گویا ایسا ہی ہے کہ ہماری مساجد، مدارس، خانقاہوں، قبرستانوں اور دیگر وقف کی املاک کو مسلم دشمنوں کے تصرف میں دے دینا، جن سے خیر کی ذرا بھی امید نہیں ہے۔ اور کوئی مسلمان کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ اللہ کی ملکیت (اوقاف) اللہ کے دشمنوں کے حوالے ہو۔ لیکن یہ احمق، چاپلوس اور یوٹیوب کے ذریعے مسلمانوں کے وویوز اور ان کے سبسکرائب کی روٹی کھاکر انہیں سے غداری کرنے والا، یہی چاہتا ہے۔ 

یہ ابن الوقت ہمیشہ سے حکومت کی چاپلوسی کرکے یہ سمجھتا ہے کہ ان کی نظر میں محبوب بن جائے گا، اگر اس کی پہنچ مودی تک ہوتی تو یہ وہاں بھی پہنچ کر بوہریوں کی طرح اس کے چرنوں میں گرجاتا۔ اسے میر جعفر اور میر صادق کا انجام یاد رکھنا چاہیے، انہیں اللہ تعالیٰ نے غداری کی علامت بنا دیا ۔ جس پر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ :

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ دیں، ننگِ قوم، ننگِ وطن

ایسا بھی گمان ہوتا کہ اکبر ہاشمی کو دماغی دورہ پڑتا ہے، یعنی جیسے ہی وہ کسی ٹینشن اور ذہنی دباؤ میں آتا ہے اکابر علماء اور نمائندہ تنظیموں کے خلاف بدزبانی، بدتمیزی اور فحش گوئی پر اتر آتا ہے۔ چوں کہ شیئر مارکیٹ میں اس کا کافی پیسہ لگا ہوا ہے اور فی الحال مارکیٹ میں تقریباً تمام لوگوں کو اچھا خاصہ نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے غالب گمان ہے کہ اس کا دماغی توازن بگڑ گیا ہوگا اور اس کا سارا غصہ وہ مسلمانوں اور ان کی نمائندہ تنظیموں پر نکال رہا ہے۔

اسی طرح شیئر مارکیٹ کے بارے میں اس سے رہنمائی لینے والے بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ جھوٹا مفتی ہے، یہ کسی بھی ادارہ کا فارغ نہیں ہے، آن لائن مفتی بنا تھا، لیکن اس کی غلط سلط حرکتوں کی وجہ سے اس کی سند بھی واپس لے لی گئی ہے، لہٰذا اسے مفتی سمجھنا اور کہنا بھی جائز نہیں ہے، یہ آپ کی آخرت تو برباد کرے گا ہی، ساتھ میں دنیا بھی برباد کردے گا۔ 

اکبر ہاشمی باطل کا آلہ کار ہو یا پھر اس کا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہو، بہرصورت یہ مسلمانوں کے حق میں انتہائی نقصان دہ ہے، لہٰذا اس کی بکواس کس طرح بند ہو؟ اس کا کوئی شرعی اور قانونی حل کمنٹ باکس میں ضرور بتائیں۔ 

ایک حل تو یہی ہے کہ اس کے چینل کو ان سبسکرائب اور رپورٹ کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ ایسے غداروں کو ہدایت عطا فرمائے ورنہ انہیں عبرت کا نشان بنا دے۔ آمین 

ہفتہ، 19 اپریل، 2025

بوہرہ سماج کا وقف ترمیمی قانون کی حمایت اور ہمارا رد عمل


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! خبر ہے کہ داؤدی بوہرہ مذہب کے ایک وفد نے جمعرات کے روز وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور حالیہ منظور شدہ وقف ترمیمی قانون 2025 پر ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ بھی باور کرایا کہ یہ قانون ان کی برادری کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ اس خبر کے پڑھنے کے بعد کچھ باتیں ذہن میں آرہی ہیں جسے آپ حضرات کی بصارت اور بصیرت کے حوالے کرنا ضروری سمجھتے  ہیں۔

سب سے پہلے ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بوہرہ اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں یا سرکاری کاغذات میں انہیں مسلمان تسلیم کیا جاتا ہو، لیکن ہم انہیں مسلمان نہیں سمجھتے، اس لیے کہ ان کے بہت سے عقائد کفریہ ہیں۔ اور ان کے اعمال کی بات کی جائے تو انہیں مادر زاد برہنہ سادھو کے پیر پڑتے اور ناریل چڑھاتے دیکھا گیا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
 بوہرہ فرقہ اپنے عقائد کفریہ کی بنا پر کافر ومرتد اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہے؛ اس سلسلے میں بعض لوگوں کی بات درست ہے، مسلمان ہونے کے لیے صرف نماز پڑھ لینا یا حج کرلینا کافی نہیں بلکہ اسلام لانے کے بعد ضروریاتِ دین کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے اور عقائد کفریہ وشرکیہ سے براءت ضروری ہے، ان کے بنیادی عقائد درج ذیل ہیں : (۱) اس جماعت کے بانی محمد برہان الدین طیب کی نسل میں برابر امامت کا سلسلہ چل رہا ہے، اگرچہ امام طیب خود غائب ہیں مگر وہ داعی کو برابر ہدایات دیتے رہتے ہیں اور اماموں کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ ائمہ کرام اللہ تعالیٰ کا نور، مفترض الطاعة اور معصوم ہوتے ہیں، دنیا وآخرت ان کی ملکیت میں ہے جس کو چاہیں دیدیں اور جس چیز کو چاہیں حلال کردیں اور جس چیز کو چاہیں حرام کردیں۔ ظاہر ہے کہ دنیا وآخرت کے خزائن کا مالک ہونا حلال وحرام کرنا یہ اللہ رب العزت کی صفت ہے، غیر اللہ کے لیے اس کو ثابت کرنا شرک ہے۔ (۲) سود لینا جائز ہے۔ (۳) دیوالی (مندر سوار) پر بھی وہ روشنی کرتے ہیں۔ (۴) مسجد، جماعت خانہ، قبرستان سب ان کا جدا ہے۔ (۵) کلمہ میں اضافہ اس طرح کرتے ہیں لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ مولا علي ولي اللہ وصي رسول اللہ۔ (۶ اذان میں ”اشہد ان محمدا رسول اللہ“ کے بعد ”اشہد أن مولا علیا ولی اللہ“ اور حی ”علی الفلاح“ کے بعد ”حی علی خیر العمل محمد وعلی خیر البشر وعشرتہا علی خیر العمل“ کا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں۔ ان عقائد کی بنا پر جن میں بعض کفریہ وشرکیہ ہیں، یہ فرقہ دائرہٴ اسلام سے خارج ہے۔ (رقم الفتوی : 64076)

بوہرہ سماج کے وفد سے وزیراعظم کہتے کہ ہیں کہ میں نے وقف قانون بنانے سے پہلے بوہرہ کے "سید" سے مشورہ کیا اور انہوں نے اس سلسلہ میں وزیر اعظم کی کافی مدد کی۔ 

وزیراعظم کا کام بھی عموماً دماغ کے باہر ہی ہوتا ہے، وقف کا مسئلہ خالص مسلمانوں کا مسئلہ ہے تو انہیں غیرمسلموں سے مشورہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر وہ انہیں مسلمان سمجھتے بھی ہیں تب بھی بوہرہ سماج کی ان کے اپنے مذہب کے مطابق اوقاف کی املاک اگر ہوں بھی تو اصل مسلمانوں کے اوقاف میں ان کا حصہ ہزارواں بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے جب بوہرہ حضرات کا اوقاف میں کوئی قابل ذکر حصہ ہی نہیں ہے تو ان سے مشورہ لینا دماغی توازن کے درست نہ ہونے یا پھر من مانی کرنے پر دلالت کرتا ہے۔

بوہرہ حضرات اس کالے قانون کے بننے پر خاموشی سے خوش ہولیتے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض کا موقع ہی نہیں ملتا، لیکن انہوں نے باقاعدہ وزیراعظم کے پاس وفد لے جاکر اس کالے قانون کے بننے پر اپنی حمایت دی اور شکریہ ادا کرکے مسلمانوں کی متفقہ لڑائی کو کمزور کرنے کی مذموم کوشش کی ہے جس کا خمیازہ تو انہیں بھگتنا پڑے گا۔ 

بوہرہ حضرات کو یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ آج ان لوگوں کی جو معاشی حالت ہے وہ مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے، ان کے زیادہ تر تجارتی معاملات مسلمانوں سے ہی ہوتے ہیں، اور اسی تجارتی معاملات سے ان کی معاشی حالت میں بہتری ہوئی ہے۔لیکن اس کے باوجود ان لوگوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام کیا ہے۔ لہٰذا مسلمان اب ان سے تجارتی معاملات کرنے کے بارے میں سو بار سوچیں گے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اعلانیہ ان کا تجارتی بائیکاٹ بھی ہو۔ اس لیے کہ فی الحال مسلمان وقف ترمیمی قانون کے حامیوں کو بخشنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ میں اگر بوہرہ سماج کی علامتی نمائندگی ہے ہماری ذمہ داران سے دست بستہ گزارش ہے کہ بوہرہ سماج کے نمائندے سے اس ناجائز حمایت کی تردید اور رجوع کروایا جائے، بصورتِ دیگر انہیں بورڈ سے فارغ کردیا جائے، کیوں کہ اس ابن الوقت جماعت کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے بورڈ میں رہنے سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے، اس لیے کہ حکومت کی چاپلوسی اور اس کی "ہاں میں ہاں ملانا" ان کی معراج ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سراسر ناانصافی پر مبنی اس قانون کو مکمل طور پر ختم ہونے کے فیصلے فرمائے، اور ہمیں اس سلسلے میں بساط بھر کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جمعرات، 17 اپریل، 2025

واشنگ پاؤڈر خریدنے پر عمرہ کروانا

سوال : 
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرا م مندرجہ ذیل سوال کے جواب میں۔
واشنگ پاؤڈر کی ایک کمپنی۲؍ کلو کی ایک پیکٹ تین سو روپیہ میں فروخت کر رہی ہے، اور یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ ہر تین ماہ میں جتنا بھی پاؤڈر فروخت ہوگا ہر خریدنے والے کے نام کی ایک پرچی بنا کر پیٹی میں ڈالی جائے گی،پھر ایک تاریخ مقرر کرکے سب لوگوں کے سامنے کسی نابینا کے ہاتھ سے پانچ نام کی پرچی نکالی جائے گی، جن خریداروں کے نام کی قرعہ اندازی کے ذریعہ نکالی گئی پرچی میں آئے گا ان کو ۱۵؍ روز کے لئے عمرہ کے سفر پر بھیجا جائے گا، اور یہ اسکیم ۵۰۰ لوگوں کو بھیجنے تک ان شاء اللہ جاری رہے گی نیز ان سے کوئی بھی زائد روپیہ نہیں لیا جائے گا، عمرہ کا پورا خرچ ممبئی سے ممبئی تک واشنگ پاؤڈر کمپنی کرے گی۔کیا اس طرح عمرہ کرنا جائز ہوگا اور اس کا ثواب بھی ملے گا؟
جواب مرحمت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
والسلام : عقیل احمد ملی، مالیگاؤں
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خریدی ہوئی چیزوں کے ساتھ خریدار کو فروخت کرنے والے کی طرف سے انعام کے طور پر قرعہ اندازی کرکے یا بغیر قرعہ اندازی کے مزید کوئی چیز دی جاتی ہے، تو یہ شکل شرعاً درست ہے، کیونکہ یہ فروخت کرنے والے کی طرف سے ایک طرح کا اضافہ ہے اور فقہاء نے مبیع (بیچی گئی اشیاء) میں اضافہ یا ثمن (قیمت) میں کمی کو جائز قرار دیا ہے، اور چونکہ خریدار کو اپنے پیسے کی چیز مل جاتی ہے، اس لئے یہ صورت قمار اور جوئے میں داخل نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں واشنگ پاؤڈر کی قیمت متعین ہوجانے کے بعد گراہک کو اس میں کوپن وغیرہ ملے اور پھر قرعہ اندازی سے انہیں واشنگ پاؤڈرکمپنی کی طرف سے عمرہ کرایا تو اس انعام کا قبول کرنا جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔


وصح الزیادۃ في المبیع ولزم البائع دفعہا۔ (تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب البیوع / باب المرابحۃ والتولیۃ، مطلب: في تعریف، الکرّ ۷؍۳۸۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 شوال المکرم 1446

منگل، 15 اپریل، 2025

امبیڈکر جینتی اور مسلمانوں کے کرنے کا کام


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! ڈاکٹر بھیم راؤ صاحب امبیڈکر (Dr. B. R. Ambedkar) بھارت کے ایک ممتاز ماہر قانون، سیاستدان، اور سماج سدھارک تھے۔ وہ دلتوں (نچلی ذاتوں) کے حقوق کے بہت بڑے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی (USA) اور لندن اسکول آف اکنامکس (UK) سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ذات پات کے خلاف جدوجہد کی اور دلتوں کو سماجی انصاف دلانے کے لیے تحریک چلائی۔ بھارت کا آئین تیار کرنے والی کمیٹی کے صدر رہے اور 1950 میں نافذ کیے گئے آئین کے بنیادی مصنف تھے۔ 

ڈاکٹر امبیڈکر صاحب کی پیدائش 14 اپریل 1891 کو مدھیہ پردیش میں ایک مہار ذات کے خاندان میں ہوئی۔ چنانچہ ہر سال 14 اپریل کو آپ کی جینتی منائی جاتی ہے۔

ان بڑی خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے وہ "مہا پُرش" کہلاتے ہیں اور آئینِ ہند کی تیاری میں چوں کہ آپ کا کردار مرکزی رہا ہے، اس لیے انصاف پسند ہندوستانیوں کا آپ کو پسند کرنا ایک بدیہی عمل ہے، لیکن چوں کہ مسلمانوں کے لیے ہر معاملات میں شرعی حدود اور قیود بیان کی گئی ہے، مسلمانوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑا گیا ہے کہ وہ جو چاہے کریں۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی وہ تعلیمات جو شریعت سے متصادم نہ ہوں اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ہو تو اس کا بیان اور عام کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ شرعاً مستحسن بھی ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بعض نوجوانوں میں جائز ناجائز کی تمیز ختم ہوگئی ہے، انہیں بس ہلڑبازی، ناچنے گانے کی محفلوں کا حصہ بننے کا موقع چاہیے، چنانچہ اس مرتبہ ان نوجوانوں نے امبیڈکر جینتی پر ناچنے گانے میں حصہ لیا اور ان جگہوں پر پہنچ کر مورتی کے ساتھ reels بنائی جو شرعاً ناجائز اور گناہ کا کام ہے، اور یہ ایسے لااُبالی نوجوان ہیں جنہیں نہ تو شریعت کا علم ہے اور نہ ہی ڈاکٹر بابا صاحب کے کارناموں کا۔ اب اسے "بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ " نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ کیوں کہ عبداللہ کو اللہ نے جتنا کام دیا گیا ہے اسے اتنا ہی کرنا چاہیے ضرورت سے زیادہ اور شریعت کو چھوڑ کر اگر وہ مذہبی رواداری کرنے جائے گا تو اسے رواداری نہیں، چاپلوسی کہا جائے گا جو اسے دنیا میں بھی کام نہیں آئے گی، اور آخرت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر بھیم راؤ صاحب امبیڈکر کو سچا خراج پیش کرنا ہے تو مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر کلیدی عہدوں پر بیٹھ کر اپنی مذہبی آزادی کو حاصل کرنا ہوگا جو آج ہم سے چھیننے کی غیرآئینی اور مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ اس لیے کہ ڈاکٹر بابا صاحب کا مشن ہی یہی تھا کہ آزاد ہندوستان میں ہر ہندوستانی اپنے مذہب پر چلنے کے لیے پورے طور پر آزاد ہو۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت اور سنت کے مطابق مذہبی رواداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس سلسلے میں ہونے والے ناجائز اعمال سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین 


اتوار، 13 اپریل، 2025

رشتہ کرانے پر اجرت لینے کا حکم


سوال :

محترم مفتی صاحب ! اگوا حضرات رشتہ طے کرانے کی اجرت لیتے ہیں، بعض لوگوں کے یہاں پہلے سے ہوتا ہے کہ اتنا دینا پڑے گا؟ بعض کچھ کہتے نہیں ہیں جتنا دیا جائے لے لیتے ہیں، دونوں طرف سے پیسہ لیا جاتا ہے، اس کا شرعی بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : رفیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : رشتہ کرانا ایک عمل ہے، لہٰذا اس پر اجرت لینا (خواہ طے کرکے ہو یا بغیر طے کیے ہو) جائز ہے، اور ایک فریق سے یا دونوں فریق سے اجرت لینا درست ہے، کیوں کہ یہ بھی دلالی کی ایک شکل ہے، جس کی فقہاء نے گنجائش لکھی ہے۔

  
قَالَ فِي التتارخانية : وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ أَنَّ فِي كُلِّ عَشَرَةِ دَنَانِيرَ كَذَا فَذَاكَ حَرَامٌ عَلَيْهِمْ. وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِ السِّمْسَارِ، فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ۔ (شامی : ٦/٦٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 شوال المکرم 1446

ہفتہ، 12 اپریل، 2025

حج بدل کب کیا جائے گا؟


سوال :

مفتی صاحب ! حج بدل سے متعلق رہنمائی فرمائیں کہ حج بدل کب کیا جاتا ہے؟ کیا کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا حج بدل کروا سکتا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عفان، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : جس شخص پر حج فرض ہو، اور حج کا وقت بھی اسے مل گیا ہو، لیکن اس وقت حج ادا نہ کرسکا ہو اور فی الحال اس میں حج ادا کرنے کی بالکل استطاعت نہ ہو، یا ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا کہ جس سے افاقہ کی بالکل امید نہیں ہے، جیسے لقوہ ہو گیا یا اندھا ہو گیا، یعنی سفر کرنے کی اس میں استطاعت نہ رہی ہو، تو ایسے شخص کے ذمے فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی کو بھیج کر حج کرائے، یا وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد میرے مال میں سے حج کرایا جائے، اس کو حج بدل کہتے ہیں۔

حج بدل کی شرط یہ ہے کہ وہ بیماری موت تک برقرار رہے، اگر حج بدل کروانے کے بعد مریض میں اتنی استطاعت آگئی کہ سفر کرسکتا ہے، تو پھر دوبارہ اس پر لازم ہوگا کہ بذات خود حج کرے۔

حج بدل کرنے والے کو بس یہ نیت کرنا ہے کہ میں فلاں کی طرف سے حج کررہا ہوں، بقیہ اعمال اسی طرح انجام دینے ہیں جس طرح خود کا حج کرنے والے کو کرنا ہوتا ہے۔


عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، فَهَلْ يَقْضِي عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ ؟ قَالَ : " نَعَمْ "۔ (صحیح البخاری، رقم : ١٨٥٤)

وَالْمُرَادُ بِالصِّحَّةِ صِحَّةُ الْجَوَارِحِ فَلَا يَجِبُ أَدَاءُ الْحَجِّ عَلَى مُقْعَدٍ وَلَا عَلَى زَمِنٍ وَلَا مَفْلُوجٍ وَلَا مَقْطُوعِ الرِّجْلَيْنِ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ وَالشَّيْخِ الَّذِي لَا يَثْبُتُ بِنَفْسِهِ عَلَى الرَّاحِلَةِ وَالْأَعْمَى وَالْمَجْبُوسِ وَالْخَائِفِ مِنْ السُّلْطَانِ الَّذِي يَمْنَعُ النَّاسَ مِنْ الْخُرُوجِ إلَى الْحَجِّ لَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ الْحَجُّ بِأَنْفُسِهِمْ وَلَا الْإِحْجَاجُ عَنْهُمْ إنْ قَدَرُوا عَلَى ذَلِكَ هَذَا ظَاهِرُ الْمَذْهَبِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَهُوَ رِوَايَةٌ عَنْهُمَا
وَظَاهِرُ الرِّوَايَةِ عَنْهُمَا أَنَّهُ يَجِبُ عَلَيْهِمْ الْإِحْجَاجُ فَإِنْ أَحَجُّوا أَجْزَأَهُمْ مَا دَامَ الْعَجْزُ مُسْتَمِرًّا بِهِمْ فَإِنْ زَالَ فَعَلَيْهِمْ الْإِعَادَةُ بِأَنْفُسِهِمْ وَظَاهِرُ مَا فِي التُّحْفَةِ اخْتِيَارُهُ فَإِنَّهُ اقْتَصَرَ عَلَيْهِ وَكَذَا الْإِسْبِيجَابِيُّ وَقَوَّاهُ الْمُحَقِّقُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ وَمَشَى عَلَى أَنَّ الصِّحَّةَ مِنْ شَرَائِطِ وُجُوبِ الْأَدَاءِ فَالْحَاصِلُ أَنَّهَا مِنْ شَرَائِطِ الْوُجُوبِ عِنْدَهُ وَمِنْ شَرَائِطِ وُجُوبِ الْأَدَاءِ عِنْدَهُمَا وَفَائِدَةُ الْخِلَافِ تَظْهَرُ فِي وُجُوبِ الْإِحْجَاجِ كَمَا ذَكَرْنَا فِي وُجُوبِ الْإِيصَاءِ وَمَحَلُّ الْخِلَافِ فِيمَا إذَا لَمْ يَقْدِرْ عَلَى الْحَجِّ وَهُوَ صَحِيحٌ أَمَّا إنْ قَدَرَ عَلَيْهِ وَهُوَ صَحِيحٌ ثُمَّ زَالَتْ الصِّحَّةُ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ إلَى الْحَجِّ فَإِنَّهُ يَتَقَرَّرُ دَيْنًا فِي ذِمَّتِهِ فَيَجِبُ عَلَيْهِ الْإِحْجَاجُ اتِّفَاقًا۔ (البحرالرائق : ٢/٣٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شوال المکرم 1446